(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا الاشعث، عن الحسن": ان النبي صلى الله عليه وسلم"خرج إلى البقيع، فراى رجلا يباع، فاتاه فساوم به، ثم تركه فرآه رجل فاشتراه فاعتقه، ثم جاء به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إني اشتريت هذا فاعتقته، فما ترى فيه؟ فقال: هو اخوك ومولاك، قال: ما ترى في صحبته؟ قال: إن شكرك فهو خير له وشر لك، وإن كفرك فهو خير لك وشر له، قال: ما ترى في ماله؟ قال: إن مات ولم يترك عصبة فانت وارثه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا الْأَشْعَثُ، عَنْ الْحَسَن": أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"خَرَجَ إِلَى الْبَقِيعِ، فَرَأَى رَجُلًا يُبَاعُ، فَأَتَاهُ فَسَاوَمَ بِهِ، ثُمَّ تَرَكَهُ فَرَآهُ رَجُلٌ فَاشْتَرَاهُ فَأَعْتَقَهُ، ثُمَّ جَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي اشْتَرَيْتُ هَذَا فَأَعْتَقْتُهُ، فَمَا تَرَى فِيهِ؟ فَقَالَ: هُوَ أَخُوكَ وَمَوْلَاكَ، قَالَ: مَا تَرَى فِي صُحْبَتِهِ؟ قَالَ: إِنْ شَكَرَكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَشَرٌّ لَكَ، وَإِنْ كَفَرَكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ وَشَرٌّ لَهُ، قَالَ: مَا تَرَى فِي مَالِهِ؟ قَالَ: إِنْ مَاتَ وَلَمْ يَتْرُكْ عَصَبَةً فَأَنْتَ وَارِثُهُ".
حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع کی طرف گئے تو دیکھا ایک آدمی بیچا جا رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے اور اس کے دام لگائے، پھر اس کو چھوڑ آئے (یعنی خریدا نہیں)، ایک اور آدمی نے اسے دیکھا اور خرید لیا اور آزاد کر دیا، پھر اس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: میں نے اس کو خریدا ہے اور اس کو آزاد کرتا ہوں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارا (اسلامی) بھائی اور غلام ہے“، اس نے پوچھا اس کو ساتھ رکھنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: ”اگر اس نے تمہارا شکر ادا کیا تو یہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارے لئے اچھا نہیں ہے، اور اگر تمہاری وہ ناشکری کرے تو وہ تمہارے لئے بہتر اور اس کے لئے برا ہے“، اس نے پوچھا: اس کے مال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: ”اگر وہ مر جائے اور مال سمیٹنے والے وارث موجود نہ ہوں تو تم اس کے وارث ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف الأشعث، [مكتبه الشامله نمبر: 3055]» اشعث بن سوار کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور یہ مرسل بھی ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 1621]، [البيهقي 240/6 مرسلًا]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف الأشعث