من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 6. باب في ابْنَيْ عَمٍّ أَحَدُهُمَا زَوْجٌ وَالآخَرُ أَخٌ لأُمٍّ: دو چچا زاد جن میں سے ایک شوہر یا ایک اخیافی بھائی ہو اس کا حصہ
حارث الاعور نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بنو عم (چچا زادوں کا) مسئلہ آیا جن میں سے ایک مادری بھائی تھا، انہوں نے کہا: سارا مال اخیافی (مادری) بھائی کا ہوگا، گویا انہوں نے مادری بھائی حساب کے یا حقیقی بھائی کے درجے میں رکھا، پھر جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے یہ مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فیصلہ انہیں بتایا تو انہوں نے کہا: اللہ ان پر رحم کرے وہ تو سمجھدار (فقیہ) تھے، لیکن میں جتنا اس صورت میں الله تعالیٰ نے فرض کیا ہے اس پر زیادہ نہ دوں گا، اس کے لئے سدس (چھاحصہ)، پھر ان میں سے ہی ایک آدمی کی طرح تقسیم ہوگی (تفصیل نیچے تشریح میں دیکھئے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن الحارث بن عبد الله الأعور فصلنا القول فيه عند الحديث (1154) في " موارد الظمآن "، [مكتبه الشامله نمبر: 2930]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ حارث بن عبداللہ الاعور میں کلام ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11134]، [عبدالرزاق 19133]، [ابن منصور 128]، [دارقطني 87/4]، [البيهقي 240/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن الحارث بن عبد الله الأعور فصلنا القول فيه عند الحديث (1154) في " موارد الظمآن "
حارث الاعور نے روایت کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بنو عم کا مسئلہ لایا گیا جن میں سے ایک اس کا مادری بھائی تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کل مال کا وارث اسی کو بنادیا ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ تو فقیہ ہیں لیکن میں ان کی جگہ ہوتا تو اس کو سدس دیتا اور جو بچے گا پھر ان سب بنی عم کے درمیان تقسیم کرتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2931]»
اس روایت کی سند بھی حسن ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 2921 سے 2923) اس مسئلہ کی صورت اس طرح بنے گی کہ ایک آدمی نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا، پھر اس نے دوسری عورت سے شادی کی اس سے بھی ایک لڑکا ہوا، پھر اس دوسری کو اس نے طلاق دیدی اور اس نے پہلے شوہر کے بھائی سے شادی کر لی اور اس سے بھی ایک لڑکا پیدا ہوا جو اس کا مادری بھائی بھی ہوا اور چچا کا بیٹا بھی ہوا، پھر وہ بنو عم کو چھوڑ کر وفات پا گیا جن میں سے ایک مادری بھائی تھا، اس صورت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس اخیافی بھائی کو صرف ایک سدس کا وارث قرار دیا، کیوں کہ فرمانِ الٰہی ہے: « ﴿وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ .....﴾ [النساء: 12] » بخاری شریف میں تعلیقاً یہ مسئلہ اس طرح ہے کہ شوہر کا حصہ نصف اور مادری بھائی کا سدس اور جو بچے گا وہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر دیا جائے گا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہی فیصلہ تھا جو اقرب الی الصواب اور یہی جمہور کا مسلک ہے، سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کہا، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو کہا کہ سارا مال مادری بھائی کا ہے اس کا مطلب یہ کہ شوہر کو آدھا حصہ دینے کے بعد باقی جو بچا سب مادری (ماں جائے) بھائی کا ہے، یہ قول مرجوح ہے۔ اور حساب کا مطلب یہ ہے کہ جو حصہ اس کے لئے اللہ نے فرض کیا ہے۔ قاضی شریح رحمہ اللہ سے بھی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق مروی ہے جن سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مناظرہ کیا اور ان کو قائل کر لیا، اس لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہی راجح اور قابلِ قبول ہے، واللہ اعلم۔ تفصیل کے لئے [التعليق المغني على سنن الدار قطني 87/4، 240/6] ملاحظہ کیجئے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن وهو مكرر سابقه
|