من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 52. باب مَا لِلنِّسَاءِ مِنَ الْوَلاَءِ: کیا ولاء میں عورتوں کا بھی حق ہے؟
عبدالملک نے بیان کیا، عطاء سے مروی ہے: ایسا آدمی جو مرنے کے بعد صرف ایک مکاتب غلام (جس کی آزادی کے لئے رقم مقرر ہو) چھوڑ گیا اور اس کے بیٹے بیٹیاں ہیں، کیا غلام کی میراث میں سے عورتوں کے لئے کچھ حصہ ہو گا؟ عطاء نے کہا: عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہو گا جو رقم مکاتبے کے مطابق ابھی دینا باقی ہے، اور ولاء (حق وراثت) صرف مردوں کے لئے ہو گا، عورتوں کے لئے نہیں، سوائے اس رقم کے جو انہوں نے مقرر کی ہو یا آزاد کیا ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3184]»
عبدالملک: ابن ابی سلیمان ہیں، اور عطاء: ابن ابی رباح ہیں۔ اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [البيهقي 341/10] وضاحت:
(تشریح حدیث 3174) مطلب یہ ہے کہ جو عورت اپنے غلام سے مکاتبہ کر کے رقم متعین کرے کہ اتنی رقم دوگے تب آزاد ہوگے، تو یہ رقم اس عورت کے لئے لینا جائز ہوگا، یا عورت غلام آزاد کرے تب بھی اس کا ولاء عورت کے لئے ہوگا، جیسا کہ حدیث بریرہ میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا: تم خریدو اور آزاد کر دو، «الولاء لمن اعتق.» اس کی تفصیل «كتاب البيوع، باب النهي عن بيع الولاء» میں گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
لیث سے مروی ہے طاؤس رحمہ اللہ نے کہا: ولاء کی عورتیں وارث نہ ہوں گی سوائے اس کے (ولاء کے) جس کو وہ (خود) آزاد کریں یا وہ آزاد کرے جس کو انہوں نے آزاد کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن إبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 3185]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ تخریج دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 16266، 16267] وضاحت:
(تشریح حدیث 3175) دوسرے کے آزاد کرنے سے عورتیں ولاء کی حق دار نہ ہوں گی، صرف اسی کے ولاء کی حق دار ہوں گی جس کو انہوں نے خود آزاد کیا ہے، یا ان کے آزاد کردہ نے جس کو آزاد کیا اس کا ولاء (حقِ وراثت) حق دار کی غیر موجودگی میں عورتوں کے لئے ہوگا۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن إبي سليم
معمر سے مروی ہے، یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: ایک آدمی نے وفات پائی اور اس نے ایک مکاتب غلام چھوڑا، پھر وہ مکاتب بھی مر گیا، اس صورت میں ابن المسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے جو رقم مکاتبہ میں سے باقی رہ گئی تھی اس کو مالک کے بیٹے بیٹیوں (مرد و عورت) میں تقسیم کیا، پھر مکاتبہ کے بعد جو مال اس مکاتب کا بچ گیا تھا تو غلام کے مالک کے مرد وارثین میں وہ تقسیم ہوگا، عورتوں میں نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى أبي سلمة، [مكتبه الشامله نمبر: 3186]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوسفیان: محمد بن حمید یشکری ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11558]، [عبدالرزاق 15769]، [ابن منصور 478]، [البيهقي 341/10] وضاحت:
(تشریح حدیث 3176) اس اثر سے طاؤوس رحمہ اللہ کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ مکاتب کا ولاء صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى أبي سلمة
ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا عمر، سیدنا علی اور سیدنا زید رضی اللہ عنہم نے کہا: ولاء (حق وراثت) بڑوں کا ہے، اور عورتوں کو یہ حضرات ولاء کا وارث نہیں مانتے تھے، سوائے اس کے جس کو وہ خود آزاد کریں یا مقررہ رقم پر آزاد کرنے کا مکاتبہ کریں۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 3187]»
اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11550]، [عبدالرزاق 16263] و [البيهقي 306/10 باب لا ترث النساء الولاء إلا من اعتقن......]۔ نیز دیکھئے: اثر رقم (3066، 3068) «في هذا الكتاب» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع
ابوقلابہ، سعید بن المسيب، سلیمان بن یسار نے کہا: عورتیں ولاء کی وارث نہیں ہوں گی سوائے ان عورتوں کے جنہوں نے آزاد کیا یا مکاتبہ کیا۔
تخریج الحدیث: «الحديث إسناده صحيح إلى أبي قلابة عبد الله بن زيد الجرمي واسناده صحيح أيضا إلى سعيد بن المسيب أما من طريق ابن الزناد اسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3188، 3189، 3190]»
اس اثر کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [سنن سعيد بن منصور 480] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث إسناده صحيح إلى أبي قلابة عبد الله بن زيد الجرمي واسناده صحيح أيضا إلى سعيد بن المسيب أما من طريق ابن الزناد اسناده حسن
حسن رحمہ اللہ نے کہا: عورتیں ولاء کی وارث نہ ہوں گی سوائے ان عورتوں کے جنہوں نے اس (غلام) کو آزاد کیا یا جس غلام کو انہوں نے آزاد کیا اس نے (کسی کو) آزاد کیا (اور) سوائے ملاعنہ (لعان کرنے والی عورتوں) کے کیوں کہ وہ اس کی وارث ہو گی جس کو اس کے لڑکے نے آزاد کیا، جس لڑکے سے اس کے باپ نے انکار کر دیا ہو (کہ یہ لڑکا میرا نہیں ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3191]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11552]، [ابن منصور 481]۔ اس کی سند میں اشعث: ابن عبداللہ بن جابر الحدانی ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سالم سے مروی ہے، ان کے والد سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلاموں کے وارث ہوتے تھے عمر کی لڑکیوں کو چھوڑ کر، یعنی غلاموں کے ولاء سے لڑکیوں کو کچھ نہ دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3192]»
اس اثر میں ابن وہب: عبداللہ، اور یونس: ابن یزید ہیں۔ کہیں اور یہ روایت نہیں مل سکی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
خالد الحذاء سے مروی ہے: ابوقلابہ نے کہا: ایک عورت مر گئی اور اس نے اپنے بچے چھوڑے جو اس کے مال کے وارث ہوئے اور غلام بھی چھوڑے، پھر اس کے لڑکے بھی فوت ہو گئے، ابوقلابہ نے کہا: ایسی صورت میں غلاموں کا حق میراث عورت کے عصبہ کی طرف جائے گا۔ (یعنی بھائی وغیرہ جن کا حصہ شریعت کے فرائض میں مقرر نہیں اور وہ باقی بچے حصے کے حق دار ہوں گے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى أبي قلابة عبد الله بن زيد الجرمي، [مكتبه الشامله نمبر: 3193]»
اس حدیث کی سند ابوقلابہ عبداللہ بن زید الجرمی تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11554 بغير هذا اللفظ] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى أبي قلابة عبد الله بن زيد الجرمي
منصور نے کہا: میں نے ابراہیم رحمہ اللہ سے پوچھا: ایک آدمی نے اپنے غلام سے مکاتبت کی پھر انتقال کر گیا اور اپنے پیچھے عورت مرد وارثین چھوڑے؟ انہوں نے کہا کہ: وہ صرف مردوں کا حصہ ہو گا عورتوں کا نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3194]»
اس روایت کی سند ابراہیم رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11557]، [البيهقي 341/10]۔ اس اثر کی سند میں منصور: ابن المعتمر، اسرائیل: ابن یونس، عبید الله: ابن موسیٰ ہیں۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3177 سے 3183) یعنی مقررہ رقم جو غلام مکاتبت کے مطابق ادا کرے اس کے وارث مرد ہوں گے عورتیں نہیں ہوں گی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم
یونس (ابن عبید) نے حسن رحمہ اللہ سے بیان کیا، وہ کہتے تھے: عورت مر جائے اور غلام چھوڑ جائے تو حق وراثت (ولاء) اس کے لڑکوں کا ہو گا، اور لڑکے موجود نہ ہوں یعنی مر جائیں تو ولاء اس عورت کے عصبہ کی طرف لوٹ جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3195]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 16254] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مغیرہ سے مروی ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: ولاء (غلام کا حق وراثت) میں سے عورتوں کے لئے کچھ نہیں ہے سوائے اس عورت کے جو ازخود کسی غلام کو آزاد کرے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3196]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11556، 11671]، [عبدالرزاق 16261]، [ابن منصور 481] وضاحت:
(تشریح احادیث 3183 سے 3185) یعنی عورت جب اپنے غلام کو خود آزاد کرے تو اس کے مال کی وارث ہوگی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم
(عبداللہ) ابن عون سے مروی ہے، محمد (ابن سیرین رحمہ اللہ) نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام فوت ہو گیا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی لڑکیوں کے لئے میراث میں سے کچھ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: میری رائے میں تو ان کے لئے کچھ نہیں ہے، اگر تم دینا چاہو تو انہیں کچھ دے سکتے ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى محمد بن سرين، [مكتبه الشامله نمبر: 3197]»
اس روایت کی سند محمد بن سیرین تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 15776] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى محمد بن سرين
ہشام سے مروی ہے ان کے والد نے کہا: ولاء کا حق دار وہی ہو گا جو میراث کا حق دار ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3198]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابواسامہ کا نام حماد بن اسامہ ہے۔ دیکھئے: [البيهقي 305/10] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوبکر بن عمرو بن حزم سے مروی ہے بنی محارب کی ایک عورت نے اپنے غلام کا ولاء اسی (غلام) کو ہبہ کر دیا اور اسے آزاد کر دیا، اس غلام نے اپنا ولاء (حق وراثت) عبدالرحمٰن بن عمرو بن حزم کو دے دیا، اور پھر وہ عورت مر گئی تو اس غلام کے موالی نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس مقدمہ دائر کیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے قول پر دلیل طلب کی، وہ غلام دلیل لے آیا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ جاؤ جس کو چاہو اپنا ولی بنا لو، چنانچہ اس نے عبدالرحمٰن بن عمرو بن حزم کو ولی بنا لیا۔ یعنی ولاء کا وارث بنا لیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3199]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوخالد کا نام سلیمان بن حیان ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 518]، [ابن منصور 226] وضاحت:
(تشریح احادیث 3185 سے 3188) ان تمام آثارِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ ولاء کے وارث صرف مرد ہوں گے، عورتیں ولاء کی وارث نہیں ہوں گی، ہاں عورت اگر خود غلام آزاد کرے تو وہ اپنے غلام کے ولاء کی وارث ہوگی۔ والله اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|