من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 25. باب في مِيرَاثِ الْخُنْثَى: خنثی (ہیجڑے) کی میراث کا بیان
محمد بن علی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ایسے آدمی کے بارے میں جو نہ مرد ہو نہ عورت (یعنی ہیجڑا ہو) اس کو کس حیثیت سے میراث دی جائے گی (مرد کی یا عورت کی)، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: جس عضو سے پیشاب نکلے (یعنی پیشاب جس جگہ سے کرے اس کا اعتبار ہو گا، ذکر سے پیشاب کرے تو مرد ورنہ عورت کی میراث پائے گا)۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع (بين محمد بن علي بن الحسين وعلي بن أبي طالب)، [مكتبه الشامله نمبر: 3012]»
محمد بن علی الحسین کا اپنے دادا سے لقاء ثابت نہیں۔ تخریج اگلی حدیث کے تحت آرہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع (بين محمد بن علي بن الحسين وعلي بن أبي طالب)
شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خنثی (ہیجڑے) کے بارے میں کہا: پیشاب کرنے کی جگہ کے اعتبار سے وہ وارث ہو گا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 3013]»
اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں: شعبی رحمہ اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا، اور ہشیم مدلس ہیں عنعنہ سے روایت کی ہے۔ تخریج دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11410]، [عبدالرزاق 19204]، [ابن منصور 126]۔ مغیرہ: ابن مقسم ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
ابوہانی نے کہا: عامر (الشعبی) رحمہ اللہ سے ایسے بچے کے بارے میں پوچھا گیا جو نہ مذکر ہو نہ مؤنث، نہ پورا عضو مرد کا نہ پورا عضو عورت کا ہو، اس کی ٹنڈی سے پیشاب پاخانہ نکلے، اس کا میراث میں حصہ کس حیثیت سے ہو گا؟ انہوں نے جواب دیا: اس کا آدھا حصہ مرد کی حیثیت سے اور آدھا حصہ عورت کی حیثیت سے ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3014]»
ابوہانی کا نام عمر بن بشیر ہے، اور اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11413]، [دارقطني 81/4] وضاحت:
(تشریح احادیث 3001 سے 3004) یہ مسئلہ خنثی مشکل کا ہے، اور اس بارے میں بہتر یہ ہے کہ بچہ اگر ہو تو بلوغت تک انتظار کر لیا جائے، ہو سکتا ہے کوئی صورتِ حال واضح ہو جائے، اور اگر میراث کی تقسیم فی الفور ضروری ہو تو بعض اہلِ علم کے نزدیک اسے نصف حصہ مذکّر کا اور نصف حصہ مؤنّث کا دے دیا جائے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [منهاج المسلم، ص: 697] ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
|