من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 8. باب في الإِخْوَةِ وَالأَخَوَاتِ وَالْوَلَدِ وَوَلَدِ الْوَلَدِ: بھائی، بہن، بیٹے اور پوتے کا بیان
مسروق رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حقیقی بہنوں اور پدری بہنوں کے بارے میں کہا: حقیقی بہنوں کے لئے دوثلث ہوگا اور جو بچے گا وہ صرف مردوں کے لئے ہوگا عورتوں کے لئے نہیں، پھر مسروق جب مدینہ آئے تو سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول سنا جو انہیں بہت پسند آیا، ان کے بعض شاگردوں نے کہا: آپ (اپنے استاذ) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ دیں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں مدینہ آیا تو سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مضبوط اور پختہ علم والوں میں سے پایا۔
أحمد بن عبداللہ بن یونس نے کہا: میں نے ابن شہاب سے پوچھا: سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں کیا کہا؟ تو انہوں نے کہا کہ حقیقی اور پدری سب کو انہوں نے شریک بنایا۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأحمد بن عبد الله هو: ابن يونس. وأبو شهاب: هو عبد ربه بن نافع، [مكتبه الشامله نمبر: 2933]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوشہاب کا نام عبدربہ بن نافع ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11129]، [عبدالرزاق 19013]، [ابن منصور 18]، [البيهقي 230/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأحمد بن عبد الله هو: ابن يونس. وأبو شهاب: هو عبد ربه بن نافع
اسماعیل بن ابی خالد نے کہا: ہم نے حکیم بن جابر کے پاس تذکرہ کیا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ حقیقی بہن اور پدری بھائی بہن کے ساتھ حقیقی بہنوں کو دو ثلث دیتے ہیں اور جو بچتا ہے وہ صرف مردوں میں تقسیم کرتے ہیں عورتوں کو کچھ نہیں دیتے، حکیم نے کہا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تو دورِ جاہلیت کا عمل ہے کہ عورتوں کے بجائے صرف مرد ہی وارث ہوں، ان کی عورتیں وارث نہ ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه ابن أبي شيبة، [مكتبه الشامله نمبر: 2934]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11127]، [ابن حزم فى المحلی 270/9] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأخرجه ابن أبي شيبة
مسروق رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دو بیٹیوں اور ایک پوتی و ایک پوتے کو میراث میں شریک کرتی تھیں، چنانچہ وہ دونوں بیٹیوں کو دو ثلث دیتی تھیں اور باقی بچا ایک ثلث میں سب کو شریک کرتی تھیں۔
اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پوتی کو شریک نہیں کرتے تھے، جو بچتا وہ صرف مردوں میں تقسیم کرتے، اور وہ کہتے تھے: بہنیں بیٹیوں کے درجے میں ہیں۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه ابن أبي شيبة، [مكتبه الشامله نمبر: 2935]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11126]، [المحلی لابن حزم 270/9]، [البيهقي 230/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 2924 سے 2927) یہ مسئلہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے کے مطابق اس طرح ہے کہ ایک آدمی کا انتقال ہوا، اور اس نے دو بیٹیاں ایک پوتا اور ایک پوتی چھوڑے تو دونوں بیٹیوں کو دو ثلث، اور باقی بچا ایک ثلث میں سے دو حصے للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت پوتے کو، اور ایک حصہ پوتی کو ملے گا۔ اور مسئلہ 9 سے ہوگا۔ دو بیٹیاں . . . . ثلثان . . . . 6 ایک پوتا . . . . سہمان . . . . 2 ایک پوتی . . . . سہم . . . . 1 سیدنا علی اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما بھی یہی کہتے تھے۔ لیکن سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیٹیوں سے جو پچتا وہ سب پوتے کا ہوگا اور پوتی محروم کر دی جائے گی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأخرجه ابن أبي شيبة
شعبی رحمہ اللہ نے کہا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک بیٹی اور کئی پوتیوں اور ایک پوتے کے بارے میں کہتے تھے کہ اگر تقسیم میں ان کے لئے سدس سے کم آتا ہو تو بھی انہیں سدس دیدیتے، اور اگر سدس سے زیادہ آتا تب بھی انہیں سدس دیتے تھے۔
بیٹی نصف 3 پوتا سہمان 2 پوتی سہم سدس تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي سهل محمد بن سالم، [مكتبه الشامله نمبر: 2936]»
اس اثر کی سند ابوسہل محمد سالم کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن ابن ابی شیبہ میں صحیح سند سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11132]، [عبدالرزاق 19033] وضاحت:
(تشریح حدیث 2927) ابن ابی شیبہ نے [ابن أبى شيبه 11132] میں اس مسئلہ کو اور تفصیل سے روایت کیا ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیٹی کو نصف دیتے تھے اور پوتی کو پوتوں کے بعد اگر سدس سے زیادہ ملا تو سدس سے زیادہ دیتے، اور اگر اس کو سدس سے کم بچتا تو ایسی تقسیم کرتے کہ پوتی کو ضرر نہ پہنچے۔ اور دیگر صحابہ کرام کا فیصلہ اس مسئلہ میں یہ تھا کہ نصف بیٹی کو اور جو بچے وہ للذکر مثل حظ الانثیین کے اصول کے تحت پوتے کو دو اور پوتی کو ایک یعنی سدس ملے گا۔ اصل مسئلہ 6 سے اس طرح ہوگا: بیٹی . . . . نصف . . . . 3 پوتا . . . . سہمان . . . . 2 پوتی . . . . سہم . . . . سدس (1) قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي سهل محمد بن سالم
مسروق رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ بیٹی، پوتی اور دو بہنوں کو وراثت میں شریک کرتے تھے تو علقمہ نے ان سے کہا کہ ایسا کہنے والوں میں کوئی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے زیادہ (پختہ علم والے) تھے؟ مسروق رحمہ اللہ نے کہا: نہیں، لیکن میں نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور اہلِ مدینہ کو دیکھا کہ وہ ان کو شریک کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2937]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور یہ مسئلہ رقم (2927) میں گذر چکا ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11129، 11130]، [عبدالرزاق 19013]، [ابن منصور 18]، [المحلی لابن حزم 239/9] وضاحت:
(تشریح حدیث 2928) اس قول کے مطابق بیٹیاں اور بہنیں دو ثلث، اور پوتی و پوتے ایک ثلث میں للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم ہوگی۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے قاضی شریح سے روایت کیا کہ ایک عورت نے اپنا شوہر، ماں، حقیقی بہن، پدری بہن اور مادری بھائی چھوڑے تو انہوں نے چھ سے تقسیم کی اور اس کو بڑھا کر دس کیا اور شوہر کو تین سہم (یعنی چھ میں سے تین) نصف حصہ دیا، حقیقی بہن کو باقی تین سہم یعنی نصف حصہ دیدیا، پھر ماں کو سدس (ایک سہم) اور مادری بھائیوں کو ثلث یعنی دو سہم اور پدری بہن کو ثلثین پورا کرتے ہوئے ایک سہم دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2938]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 283/11، 11238]، [عبدالرزاق 19034]، [البيهقي 251/6] وضاحت:
(تشریح حدیث 2929) اس مسئلہ کی صورت یہ ہوگی: زوج . . . . 3 سہم . . . . 3 ام . . . . سہم . . . . 1 حقیقی بہن . . . . ثلاثہ اسہم . . . . 3 پدری بہن . . . . سہم . . . . 1 مادری بھائی . . . . سہمان . . . . 2 قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|