من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 40. باب في مِيرَاثِ الْمُرْتَدِّ: مرتد ہو جانے والے کی میراث کا بیان
قاسم بن عبدالرحمٰن نے کہا: اسلام سے پھر جانے والا (مرتد) اگر قتل کر دیا گیا ہو تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس کے اہل کو اس کا وارث مانتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه القاسم لم يدرك جده عبد الله فروى عنه مرسلا، [مكتبه الشامله نمبر: 3116]»
قاسم کا اپنے دادا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملنا ثابت نہیں، لہٰذا سند میں انقطاع ہے اور یہ مرسل ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11429، 12812]، [عبدالرزاق 19297]، [البيهقي 255/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه القاسم لم يدرك جده عبد الله فروى عنه مرسلا
ابوعمرو شیبانی نے کہا: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مرتد کی میراث اس کے مسلمان وارثین کے لئے قرار دی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3117]»
ابوعمرو: سعد بن ایاس ہیں۔ اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11430]، [البيهقي 254/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حکم سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مرتد کی میراث کا اس کے مسلمان وارثین میں تقسیم کا فیصلہ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف الحجاج وهو ابن أرطاة. ولأنه منقطع أيضا الحكم لم يدرك عليا، [مكتبه الشامله نمبر: 3118]»
حجاج بن ارطاة کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن اوپر اس کا صحیح شاہد گزر چکا ہے، دوسرے طرق سے بھی یہ فیصلہ مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11431]، [عبدالزراق 19143، 19301]، [البيهقي 254/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 3095 سے 3109) مرتد خود کسی مسلمان میت کا وارث نہ ہوگا، لیکن اگر وہ مر جائے تو اس کے وارث مسلمان رشتے دار ہوں گے، اور یہ مسئلہ مسلم اور کافر سے مختلف ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف الحجاج وهو ابن أرطاة. ولأنه منقطع أيضا الحكم لم يدرك عليا
|