من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 26. باب الْكَلاَلَةِ: کلالہ کا بیان
شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کلالہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں اس بارے میں اپنی رائے بیان کرتا ہوں، وہ صحیح ہو تو الله تعالیٰ کی طرف سے (ہدایت) ہے اور اگر غلط ہوا تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے، میرا خیال ہے کہ (کلالہ وہ میت ہے) جس نے نہ باپ چھوڑا ہو اور نہ بیٹا، پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے کہا: مجھے اللہ سے اس بات پر شرم آتی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو کہا اس کو رد کر دوں۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 3015]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن سند میں انقطاع ہے۔ عاصم: ابن سلیمان ہیں اور عامر: ابن شراحبیل الشعبی ہیں۔ حوالہ کے لئے دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11646]، [عبدالرزاق 19191]، [ابن منصور 591]، [البيهقي 224/6] وضاحت:
(تشریح حدیث 3004) کلالہ اس مرنے والے کو کہتے ہیں جس نے نہ باپ چھوڑا ہو اور نہ بیٹا۔ سورۂ نساء کی آخری آیت 176 میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ ایسے مرنے والے نے اگر صرف بہن چھوڑی ہے تو اس کو نصف ملے گا، دو بہنیں ہیں تو دو ثلث ملے گا، اور اگر صرف بہن بھائی چھوڑے ہیں تو للذکر مثل حظ الانثین کے قاعدے کے مطابق ترکہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع
عقبہ بن عامر جہنی نے کہا: اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چیز نے اتنا نہیں تھکایا جتنا کلالہ نے انھیں تھکایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3016]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11648] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کلالہ یہ ہے کہ (مرنے والا) باپ اور بیٹا نہ چھوڑے (جو اس کا وارث ہو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 3017]»
اس روایت کی سند صحیح على شرط البخاری ہے۔ اس کی سند میں حسن بن محمد: ابن علی بن ابی طالب ہیں۔ تخریج دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11647]، [عبدالرزاق 19189]، [ابن منصور 588]، [تفسير طبري 284/4]، [البيهقي 225/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
سعید (بعض روایات میں سعد) سے مروی ہے کہ انہوں نے یہ آیت پڑھی: «وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ . . . . . .» [نساء: 12/4] یعنی: جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو (یعنی اس کا باپ اور بیٹا نہ ہو) اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے، یہ آیت ہے لیکن اس کو سعید نے «فله أخ أو أخت لأم» پڑھا ہے، یعنی بھائی اور مادری بہن چھوڑے۔
تخریج الحدیث: «ما بين حاصرتين زيادة من الطبري إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3018]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11650]، [ابن منصور 592]، [طبري 287/4]، [البيهقي 231/6]۔ «باب فرض الأخوة والأخوات لأم» مقصد یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں بھائی اور بہن سے مراد اخیافی بھائی اور بہن (مادری بہن بھائی ہیں) اور حقیقی بہن کا حصہ نصف ہے۔ «كما فى آخر آية من سورة النساء والله اعلم» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: ما بين حاصرتين زيادة من الطبري إسناده صحيح
|