من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 5. باب في الْمُشَرَّكَةِ: مشرکہ یعنی بھائیوں کی شرکت کا بیان
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے شوہر، ماں اور حقیقی و مادری بھائیوں کے بارے میں مروی ہے، انہوں نے کہا: سیدنا عمر، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا زید رضی اللہ عنہم سب بھائیوں کو وراثت کے حصہ میں شریک کرتے تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: باپ حقیقی بھائیوں کو مادری بھائیوں سے قریب کر دیتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2924]»
اس روایت کی سند صحیح علی شرط البخاری ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11145]، [عبدالرزاق 19009]، [ابن منصور 20، 21] وضاحت:
(تشریح احادیث 2914 سے 2916) بہن بھائی تین قسم کے ہوتے ہیں: (1) حقیقی: جن کے ماں باپ ایک ہوں، (2) پدری: جن کے والد ایک اور مائیں مختلف ہوں، (3) مادری: جن کی ماں ایک اور باپ مختلف ہوں۔ اور عصبہ سے مراد وہ رشتے دار ہیں جن کے حصے کتاب و سنّت میں مقرر نہیں، مختلف حالتوں میں ورثاء سے جو بچے وہ ان کے حصے میں آتا ہے، ان ہی عصبہ میں سے بھائی ہیں جو دیگر وارثین کی موجودگی میں جو بچ جائے اس کے وارث ہوتے ہیں، بعض علماء کے نزدیک صرف حقیقی بھائی عصبہ ہو کر حصہ لیں گے، اور بعض صحابہ و تابعین کے نزدیک حقیقی، مادری اور پدری سب بھائی اس مسئلہ میں شریک ہو کر اپنا حصہ لیں گے، اسی لئے اس مسئلہ کا نام مشرکہ رکھا گیا۔ صورتِ مذکور بالا جو اثر میں بیان ہوئی ہے اس میں ایک عورت نے اپنے پیچھے شوہر اور ماں اور حقیقی بھائی اور مادری بھائی چھوڑے تو تقسیم اس طرح ہوگی: شوہر . . . . 3 . . . . نصف ماں . . . . 1 . . . . سدس حقیقی بھائی . . . . 2 . . . . ثلث مادری بھائی . . . . باقی جو بچاسب بھائیوں کے درمیان مساوی تقسیم ہوگا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
حارث نے کہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سب بھائیوں کو شریک نہ کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن الحارث بن عبد الله فصلنا القول فيه عند الحديث (1154) في " موارد الظمآن "، [مكتبه الشامله نمبر: 2925]»
اس اثر کی سند حسن ہے۔ اور حارث: ابن عبداللہ ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11154] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن الحارث بن عبد الله فصلنا القول فيه عند الحديث (1154) في " موارد الظمآن "
ابومجلز نے کہا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شریک کرتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ شریک نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو مجلز هو: لاحق بن حميد. ومحمد هو: ابن يوسف، [مكتبه الشامله نمبر: 2926]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابومجلز کا نام لاحق بن حمید ہے اور محمد: ابن یوسف ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11147]، [عبدالرزاق 19011]، [ابن منصور 22]، [البيهقي 255/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو مجلز هو: لاحق بن حميد. ومحمد هو: ابن يوسف
ابن ذکوان نے کہا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (سب بھائیوں کو) شریک کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري وابن ذكوان هو: عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 2927]»
اس روایت کی سند علی شرط البخاری صحیح ہے۔ ابن ذکوان کا نام عبداللہ ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 27]، [ابن أبى شيبه 254/11]، [عبدالرزاق 19063]، [البيهقي 256/6]، [المحلی 286/9] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري وابن ذكوان هو: عبد الله
عبدالملک بن عمیر نے کہا: (قاضی) شریح شریک کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد عبد الملك بن عمير بسطنا القول فيه عند الحديث (1998) في " موارد الظمآن "، [مكتبه الشامله نمبر: 2928]»
اس اثر کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11148] و [ابن منصور 25] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد عبد الملك بن عمير بسطنا القول فيه عند الحديث (1998) في " موارد الظمآن "
سعید بن فیروز نے اپنے والد سے روایت کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مشرکہ کے مسئلہ میں کہا: تینوں قسم کے بھائیوں میں باپ اور قربت پیدا کر دیتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل حجاج وهو: ابن أرطاة، [مكتبه الشامله نمبر: 2929]»
حجاج بن ارطاة کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن اوپر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول صحیح سند سے گذر چکا ہے۔ دیکھئے: رقم (2916) و [ابن أبى شيبه 255/11]، [عبدالرزاق 19009] وضاحت:
(تشریح احادیث 2916 سے 2921) ان تمام آثار سے معلوم ہوا کہ سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا زید رضی اللہ عنہم اور قاضی شریح رحمہ اللہ وغیرہ حقیقی، علاتی اخیافی یعنی مادری و پدری سب بھائیوں کو شریک کرتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ شریک نہ کرتے تھے۔ اور صورت مسئلہ اس طرح بنے گی کہ ایک عورت خاوند، ماں (یا دادی)، مادری بھائیوں، اور ایک یا ایک سے زیادہ حقیقی بھائیوں کو چھوڑ کر فوت ہو جائے تو اس صورت میں مسئلہ 6 سے ہوگا، جن میں سے نصف یعنی 3 حصے خاوند کے، چھٹا یعنی ایک حصہ ماں کا، اور ایک تہائی یعنی دو حصے مادری بھائیوں کو، اور حقیقی بھائیوں کو کیونکہ وہ عصبہ ہیں کچھ نہ ملے گا، اور ترکہ کے اصحاب الفروض میں مکمل ہونے کی صورت میں عصبہ محروم ہوتے ہیں۔ خاوند . . . . نصف . . . . 3 ماں . . . . سدس . . . . 1 مادری بھائی . . . . ثلث . . . . 2 حقیقی بھائی . . . . کچھ نہیں لیکن امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کر کے حقیقی بھائی یا بھائیوں کو مادری بھائیوں کے حصہ تہائی میں شریک قرار دیا، لہٰذا سب یہی برابر تقسیم کریں گے، اور یہ ایک مخصوص صورت ہے جس میں حقیقی بھائی مادری بھائی کے مانند ہے، اور وراثت کے ایک تنہائی میں سب شریک ہوں گے، اس مسئلہ کو مشترکہ، مشترکہ حجریہ (اور عمریہ و حماریہ) بھی کہتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل حجاج وهو: ابن أرطاة
|