من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 44. باب في مِيرَاثِ الْحَمِيلِ: حمیل کو میراث دینے کا بیان
شعبی رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح کو لکھا کہ بلا دلیل (بینہ) کے حمیل کو وارث نہ بنائیں، چاہے عورت اسے چیتھڑے میں لپٹا ہوا ہی کیوں نہ لائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3137]»
اشعث بن سوار کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن کئی طرق سے یہ مروی ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 19173، 19174] وضاحت:
(تشریح احادیث 3122 سے 3128) حمیل اس بچے کو کہتے ہیں جو چھوٹا سا اپنے ملک سے اٹھا کر اسلامی ملک میں لایا جائے۔ بعض نے کہا حمیل اسے کہتے ہیں کہ کوئی آدمی دعویٰ کرے کہ وہ میرا بیٹا یا بھائی ہے تاکہ اس غلام کے مالک اور آقا کے بجائے خود اس کی میراث کا وارث ہو جائے۔ بہرحال یہ دعویٰ بلا بینہ قبول نہ کیا جائے گا، جیسا کہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
منصور سے روایت ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: حمیل (اٹھا کر لایا گیا بچہ) وارث ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3138]»
منصور: ابن المعتمر ہیں، اور اسرائیل: ابن یونس، اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11421]، [عبدالرزاق 19181]، [ابن منصور 256]، [المحلی 303/9] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوبکر بن عبداللہ بن ابی مریم سے مروی ہے: ضمرة، فضیل بن فضالہ، ابن ابی عوف، راشد اور عطیہ سب نے کہا: حمیل وارث نہ ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا أبو سعيد مجهول وأبو بكر بن عبد الله بن أبي مريم ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3139]»
اس اثر کی سند میں ابوسعید مجہول، اور ابوبکر ضعیف ہیں، اس لئے ضعیف جدا ہے۔ کسی اور جگہ یہ اثر نہیں ملا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا أبو سعيد مجهول وأبو بكر بن عبد الله بن أبي مريم ضعيف
عبداللہ بن عون نے بیان کیا: محمد کے پاس حمیل کے وارث نہ ہونے کے قائلین کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے اس کی تردید کی اور کہا: مہاجرین و انصار دور جاہلیت کے نسب کے مطابق ایک دوسرے کے وارث ہوئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3140]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور یہی واضح و راجح ہے کہ حمیل نسب صحیح ثابت ہونے پر وارث ہوں گے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11420] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ہشام سے مروی ہے کہ حسن و ابن سیرین رحمہم اللہ نے کہا: حمیل بلا بینہ کے وارث نہ مانا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3141]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11417]، اس کی سند میں ابن ادریس کا نام عبداللہ ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم حمیل کو وارث نہیں مانتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3142]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے یہ اثر ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11415]۔ اوپر گذر چکا ہے بلا دلیل حمیل کو وارث نہیں مانا جاتا تھا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
اشعث بن ابی الشعثاء نے کہا: بنی محارب کی ایک عورت نے اپنے بھائی جلیب کی نسبت کا اقرار کیا تو عبداللہ بن عقبہ نے اس کی بہن کا اس کو (بھائی کو) وارث قرار دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3143]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11427]، [عبدالرزاق 19179]، [المحلی 303/9] وضاحت:
(تشریح احادیث 3128 سے 3134) مصنف عبدالرزاق میں ہے: ایک لونڈی بہت سا مال چھوڑ کر انتقال کر گئی، ایک آدمی نے دعویٰ کیا کہ وہ اس کو بھائی کہتی تھی، یعنی یہ دعویٰ تھا کہ وہ اس کا بھائی ہے، چنانچہ قاضی شریح نے اس عورت کا کل مال اسے دے دیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابن شہاب سے مروی ہے، کوئی آدمی دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے کہے کہ میں فلاں شخص کا آزاد کردہ ہوں۔ انہوں نے کہا: اس کا مال ان مالکان کو لوٹا دیا جائے گا جن کی اس نے دنیا سے رخصتی کے وقت نشان دہی کی تھی، الا یہ کہ وارثین اس کے علاوہ کوئی قوی دلیل لائیں، لہٰذا دلیل و بینہ کی روشنی میں اس کا ترکہ صاحب حق کو دیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث، [مكتبه الشامله نمبر: 3144]»
اس اثر کی سند میں لیث اور ان کے کاتب عبداللہ بن صالح متکلم فیہما ضعیف ہیں، اور یونس: ابن یزید ہیں۔ «وانفرد به الدارمي» ۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 3134) ان تمام آثار کا خلاصہ یہ ہے کہ حمیل اور موالی میں سے جس کا بھی نسب دلیل سے ثابت ہو گا وہ وراثت پائے گا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث
|