من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 14. باب قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ في الْجَدِّ: دادا کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول
عبدالرحمٰن بن معقل نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دادا کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: تمہارے باپ (دادا) میں کون سب سے بڑا ہے؟ (وفي روايۃ: اس سائل سے جواب نہ بن پڑا تو) میں نے کہا: آدم (سب سے بڑے باپ ہیں) انہوں نے جواب دیا: تم نے اللہ تعالیٰ کا قول سنانہیں ”یا بنی آدم“۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن عبد الله بن خالد لم يسمع ابن عباس بينهما الضحاك، [مكتبه الشامله نمبر: 2966]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن عبداللہ بن خالد کا سماع سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت نہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11254]، [البيهقي 246/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 2948 سے 2957) مطلب غالباً ان کا یہ تھا کہ جدِ اعلیٰ آدم علیہ السلام کو باپ ہی گردانا، کیوں کہ جب لوگ بنی آدم ہیں تو آدم علیہ السلام ان کے باپ ہی ہوئے، اور جب جدِ اعلیٰ باپ ہے تو جدِ ادنیٰ چھوٹے دادا بھی باپ ہی کے درجہ میں ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن عبد الله بن خالد لم يسمع ابن عباس بينهما الضحاك
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میری خواہش ہے کہ (دادا کے بارے میں) میں اور جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک دوسرے پر لعنت کریں جس کا قول غلط ہو (یعنی اس پر لعنت ہو جس کا قول غلط ہو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 2967]»
اس اثر کی سند میں ”رجل“ غیرمعروف ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [عبدالرزاق 19024]، [ابن منصور 37] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دادا کو باپ قرار دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2968]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 19055]، [ابن منصور 46، بسند ضعيف] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|