من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 45. باب في مِيرَاثِ وَلَدِ الزِّنَا: ولد الزنا کے میراث پانے کا بیان
شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے، سیدنا علی اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا: ولد الزنا ابن الملاعنہ کے درجہ میں ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم، [مكتبه الشامله نمبر: 3145]»
محمد بن سالم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11404]، [عبدالرزاق 12491]، [البيهقي 258/6]۔ نیز دیکھئے: اثر رقم (2996) «في ميراث ابن الملاعنه» ۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 3135) ولد الزنا وہ بچہ ہے جو زنا کاری کے نتیجے میں پیدا ہوا، اور ابن الملاعنہ وہ ہے جس کا شوہر نے انکار کیا ہو اور عورت کو زنا کی تہمت کے نتیجے میں میاں بیوی کے درمیان لعان سے جدائی ہو گئی ہو، ایسا بچہ ابن الملاعنہ کہلائے گا اور اس کی وارث ماں ہوگی باپ نہیں، اسی طرح ولد الزنا ماں کی طرف منسوب ہوگا اور اس کی وارث بھی ماں ہوگی، وہ مرد جس نے زنا کیا وہ بھی وارث نہ ہوگا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم
حکم نے کہا: ولد الزنا کا وہ شخص جو اپنا بچہ ہونے کا دعویٰ کرے وہ اس بچے کا وارث نہ ہوگا، نہ ولد الزنا اس کا وارث ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحكم بن عتيبة، [مكتبه الشامله نمبر: 3146]»
حکم بن عقبہ تک اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11466] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحكم بن عتيبة
امام زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ علی بن حسین رحمہ اللہ ولد الزنا کو وارث نہیں مانتے تھے چاہے آدمی اس کا دعویٰ کرتا رہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 3147]»
اس اثر کی سند قوی ہے، اور روح: ابن عبادہ ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11460] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
سلیمان بن یسار نے کہا: جو آدمی بھی کسی لڑکے کے پاس آئے اور یہ گمان رکھے کہ وہ اسی کا لڑکا ہے، اور اس نے لڑکے کی ماں سے زنا کیا تھا، اور اس لڑکے کے باپ ہونے کا دوسرا کوئی دعویٰ نہ کرے تو وہ اس لڑکے کا وارث ہو گا۔ بکیر نے کہا: میں نے عروة سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے بھی سلیمان بن یسار کی طرح جواب دیا، اور عروہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اولاد فراش (یعنی بستر والے) کی ہے، اور زانی کے لئے پتھر ہیں (یعنی رجم)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد الله بن صالح كاتب الليث ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3148]»
عبداللہ بن صالح کاتب اللیث کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، اور بکیر: ابن عبداللہ الاشج ہیں۔ الولد للفراش کی تفصیل پیچھے کتاب النکاح، باب الولد للفراش میں گزر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد الله بن صالح كاتب الليث ضعيف
حسن رحمہ اللہ نے کہا: ابن الملاعنہ، ولد الزنا کی طرح ہے، اس کی ماں ہی اس کی وارث ہو گی اور اس کی ماں کے وارثین اس کے وارث ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عمرو هو: ابن عبيد بن باب ضعفوه، [مكتبه الشامله نمبر: 3149]»
اس اثر کی سند میں عمرو بن عبيد بن باب ہیں جن کو علماء الجرح و التعدیل نے ضعیف کہا ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11407]، [البيهقي 258/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عمرو هو: ابن عبيد بن باب ضعفوه
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: ولد الزنا وارث نہیں بنایا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3150]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ تخریج آگے آ رہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم
امام زہری رحمہ اللہ نے اولاد الزنا کے بارے میں کہا کہ وہ ماؤں کی جانب سے وارث ہوں گے، اور اگر ایک بچہ جنا اور وہ مر گیا تو (دوسرا) سدس کا وارث ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح ولا يضره الشك، [مكتبه الشامله نمبر: 3151]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور بعض روایات میں «يوما» کے بجائے «توأما» ہے اور مصنف عبدالرزاق میں تفصیل ہے کہ زنا سے دو لڑکے جنے، جن میں سے کوئی ایک مر جائے تو دوسرا سدس (چھٹے) حصے کا وارث ہوگا۔ دیکھئے: عبدالرزاق [12493] و [ابن أبى شيبه 11406] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح ولا يضره الشك
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: ولد الزنا (حرامی) وارث نہیں ہو گا، وارث وہ ہو گا جس کے باپ پر حد جاری نہ کی گئی ہو، یا جو اس بچے کی ماں کا نکاح یا خریدنے کی وجہ سے مالک ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف هشيم مدلس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 3152]»
اس اثر کی سند میں ہشیم مدلس ہیں اور عن سے روایت کی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11465] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف هشيم مدلس وقد عنعن
اسماعیل سے مروی ہے حسن رحمہ اللہ نے کہا: (کوئی) آدمی عورت سے زنا کرے پھر اسی سے شادی کر لے، حسن رحمہ اللہ نے کہا: نکاح کر لینے میں کوئی حرج نہیں سوائے اس کے کہ وہ حاملہ ہو (یعنی حمل کی حالت میں نکاح نہ کیا ہو)، لیکن لڑکا اس کی طرف منسوب نہ ہو گا۔ (یعنی ولد الزنا نہ باپ کی طرف منسوب ہو گا اور نہ وارث ہو گا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إسماعيل وهو: ابن مسلم المكي البصري، [مكتبه الشامله نمبر: 3153]»
اسماعیل: ابن مسلم مکی بصری کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، اور کسی نے اسے روایت نہیں کیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إسماعيل وهو: ابن مسلم المكي البصري
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: ”جو لڑکا اپنے باپ کے مر جانے کے بعد اس سے ملایا جائے۔“ (یعنی اس مرنے والے کے بعد اس کے وارث دعویٰ کریں کہ یہ ہمارے موروث کا بچہ ہے)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ ”وہ لڑکا اس لونڈی سے ہے جس کا مالک جماع کے وقت اس کا باپ تھا تو اس کا نسب ملانے والے سے مل جائے گا۔ لیکن جو ترکہ اس کے ملائے جانے سے پہلے تقسیم ہو گا اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا، البتہ جو ترکہ تقسیم نہیں ہوا، اس میں اس کا بھی حصہ ہو گا، مگر وہ باپ جس سے اس کا نسب ملایا جاتا ہے اس نے اپنی زندگی میں اس کے نسب کا انکار کیا ہو تو وہ وارثوں کے ملانے سے نہیں ملے گا (یعنی اس کا بچہ نہ مانا جائے گا) اور اگر وہ لڑکا ایسی لونڈی سے ہو جس کا مالک اس کا باپ نہ تھا یا ایسی آزاد عورت سے ہو جس سے اس کے باپ نے زنا کیا تھا تو اس کا نسب کبھی اس مرد سے ثابت نہ ہو گا (گرچہ اس مرد کے وارث اس بچے کو اس سے ملا دیں) اور نہ وہ بچہ اس (زانی) مرد کا وارث ہو گا چاہے اس کے باپ نے اپنی زندگی میں اس کا دعویٰ کیا ہو کہ یہ میرا بچہ ہے، کیوں کہ وہ ولد الزنا ہے اور وہ اپنی ماں کے لوگوں سے مل جائے گا، چاہے وہ آزاد کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو یا لونڈی کے پیٹ سے (آخر ولد الزنا ہے، اور وارث نہ ہو گا، نہ نسب میں شامل ہو گا)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3154]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2265، 2266]، [ابن ماجه 2746]، [عبدالرزاق 19138]، [البيهقي 260/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 3136 سے 3145) جو بچہ زنا سے پیدا ہو وہ درحقیقت اس مرد سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا جس نے زنا کیا گو اس کا نطفہ ہی سہی۔ اس حدیث کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ زید مر گیا، اس کی ایک لونڈی تھی اس سے ایک بچہ تھا، اب زید کے مرنے کے بعد اس کے کل یا بعض وارثوں نے قبول کیا کہ یہ بچہ زید ہی کا ہے تو وہ بچہ زید کا بچہ قرار پائے گا اور نسب ثابت ہوگا اور بچہ وارث ہوگا، یا زید نے اپنی حیات میں اقرار کیا ہو کہ یہ بچہ میرا ہے تب بھی وہ نسب میں شامل ہو کر وارث ہوگا، لیکن اگر زید نے انکار کر دیا تو نہ وہ وارث ہوگا اور نہ ہی نسب میں شامل ہوگا چاہے کچھ وارثین اس کا اقرار کریں۔ واللہ اعلم۔ دیکھئے: شرح ابن ماجہ، حدیث مذکور للعلامہ وحیدالزماں خاں رحمہ اللہ تعالیٰ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
عمیر بن زید نے کہا: میں نے شعبی رحمہ اللہ سے اپنے غلام کے بارے میں پوچھا جو زنا سے پیدا ہوا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ: نہ اس کو بیچو، نہ اس کی قیمت کھانا، بس اس سے خدمت لے سکتے ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3155]»
ابن یزید الہمدانی ہیں، اور اس اثر کی سند شعبی رحمہ اللہ تک جید ہے۔ اس اثر کو امام دارمی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد إلى الشعبي
سعید نے کہا: امام زہری رحمہ اللہ سے ولد الزنا کے بارے میں پوچھا گیا جو وفات پا جائے، کہا: اگر عربی عورت سے تھا تو اس کی ماں ثلث (تہائی) کی وارث ہو گی اور باقی مال بیت المال میں داخل کر دیا جائے گا، اور اگر وہ مرنے والا لونڈی کا لڑکا تھا تو بھی اس کی ماں ثلث کی وارث ہو گی اور جو باقی بچا اس کے لونڈی کو آزاد کرنے والے وارث ہوں گے۔ مروان نے کہا: میں نے سنا امام مالک رحمہ اللہ یہ ہی فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3156]»
اس روایت کی سند میں سعید: ابن عبدالعزيز التنوخی ہیں۔ اس اثر کی سند صحیح ہے۔ اس کو امام مالک نے موطأ میں کتاب الفرائض، باب میراث ولد الملاعنہ و ولد الزنا میں ذکر کیا ہے۔ دیکھے: [البيهقي 259/6] و [شرح الزرقاني 451/3-452] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے، انہوں نے ان کے دادا (سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن الملاعنہ (جس بچے کا باپ منکر ہو) کی کل میراث (مال) کا فیصلہ ماں کے لئے کیا، کیوں کہ اس کی ہی وجہ سے وہ مصیبتوں میں گرفتار ہوئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عمرو بن شعيب، [مكتبه الشامله نمبر: 3157]»
اس روایت کی سند عمرو بن شعيب تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2098]، [البيهقي 259/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عمرو بن شعيب
زید بن وہب سے مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ولد الزنا کے بارے میں اس کی ماں کے اولیاء سے کہا کہ اس کو لے جاؤ، تم اس کے وارث ہو گے، اور اس کی دیت کے ذمہ دار بھی ہوگے، اور یہ تمہارا وارث نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3158]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھے: [ابن أبى شيبه 11403] وضاحت:
(تشریح احادیث 3145 سے 3149) ان تمام آثار سے ثابت ہوا کہ حرام زاده (زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ) اپنے باپ زانی کا وارث نہیں ہوگا، اور نہ اس کا باپ اس کا وارث ہوگا، البتہ وہ اپنی ماں کا وارث ہوگا اور ماں اس کی وارث ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ» (متفق علیہ)، یعنی اولاد صاحبِ بستر (شوہر یا مالک) کی ہے، اور زانی کے لئے پتھر ہیں، یعنی رجم کیا جائے گا۔ یہ حدیث «كتاب النكاح، باب (41)، الولد للفراش» میں گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|