من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 46. باب مِيرَاثِ السَّائِبَةِ: آزاد کردہ غلام کی میراث کا بیان
ابوعمرو الشیبانی نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آزاد کردہ غلام اپنا مال جہاں چاہے رکھ دے، عبداللہ بن زید نے کہا: شعبہ رحمہ اللہ نے کہا: سلمہ بن کہیل سے یہ میرے علاوہ کسی نے نہیں سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3159]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11480] و [البيهقي 302/10 فى الولاء، باب من استحب من السلف التنزه عن ميراث السائبه و إن كان مباحًا]۔ ابوعمرو کا نام سعد بن ایاس الشیبانی ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 3149) سائبہ کا مطلب ہے کہ وہ گائے کی طرح سے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ ایک شخص نے کسی لونڈی یا غلام کو آزاد کیا ہے تو اس آزادی کے سبب آزاد کرنے والا اپنے آزاد کردہ غلام اور لونڈی کا وارث ہوگا، چنانچہ اگر آزاد شده فوت ہو جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو یہ آزاد کرنے والا اس کا وارث ہوگا، اس لئے کہ فرمانِ رسالت ہے: آزاد کردہ کی ولاء (حقِ وراثت) اس شخص کے لئے ہے جس نے اسے آزاد کیا «(الولاء لمن اعتق. متفق عليه)» جیسا کہ [كتاب الفرائض، باب 31، اثر رقم 3041-3054] میں گذر چکا ہے، لیکن اگر کوئی «تورعا» اور «تنزها» اپنے آزاد کردہ غلام یا لونڈی کی میراث قبول نہ کرے تو یہ مستحب ہے، مذکور باب میں اسی کا تذکرہ ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یونس سے مروی ہے حسن رحمہ اللہ سے آزاد شدہ غلام کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: ہر آزاد شدہ غلام سائبہ ہے۔ (یعنی اس کی میراث آزاد کرنے والے کے لئے ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3160]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11478] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوعثمان نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صدقہ اور سائبہ (آزاد شده غلام) دونوں اپنے دن کے لئے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3161]»
ابوعثمان کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے، اور سلیمان: التیمی ہیں۔ اس اثر کو دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11465]، [عبدالرزاق 16229] اور [بيهقي 301/10] وضاحت:
(تشریح احادیث 3150 سے 3152) یعنی جس نے ثواب و اجر کے لئے صدقہ کیا اور غلام آزاد کئے تو قیامت کے دن اس کا آزاد کرنے والے کو پورا پورا اجر و ثواب ملے گا، جیسا کہ عبدالرزاق کی روایت میں یہ اضافہ ہے (یعنی: «يوم القيامة») بعض روایات میں ہے «لقومهما» اور بعض روایات میں ہے «لوقتها» غالباً یہ تصحیفات میں سے ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
زکریا نے کہا: عامر (الشعبی) رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: مملوک کو سائبہ کے طور پر آزاد کیا جائے تو اس کا ولاء (حق وراثت) کس کے لئے ہے؟ جواب دیا: جس نے اسے آزاد کیا ہے (اس کے لئے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عامر الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3162]»
اس اثر کی سند عامر الشعبی رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11477، عن زكريا بن أبى زائده] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عامر الشعبي
عبدالرحمٰن بن عمرو نے کہا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک غلام مر گیا جس کا کوئی والی وارث نہ تھا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے مال کو بیت المال میں داخل کئے جانے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف أبي حاتم روح بن أسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 3163]»
ابوحاتم روح بن اسلم کی وجہ سے یہ اثر ضعیف ہے، لیکن ابن ابی شیبہ میں دوسرے ثقہ راوی سے یہی مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11637]۔ اور اسحاق: ابن عبداللہ بن الحارث ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف أبي حاتم روح بن أسلم
عامر (شعبی) رحمہ اللہ سے مروی ہے مسروق رحمہ اللہ نے کہا: ایک آدمی مر جائے اور اس کا آزاد کرنے والا ولی بھی نہ ہو تو اس کا مال جیسی اس نے وصیت کی ہو اس طرح خرچ کیا جائے اور اگر اس نے وصیت نہ کی ہو تو وہ مال بیت المال میں داخل کر دیا جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3164]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11638]، [ابن منصور 221، 222] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوبکر بن ابی مریم سے مروی ہے، ضمرہ اور راشد بن سعد وغیرہما نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا جو کسی کو سائبہ کے طور پر آزاد کرے کہ اس (آزاد شده) کا ولاء اس کے لئے ہے جس نے آزاد کیا، کیوں کہ اس (آزاد کرنے والے) نے اس کو غلامی سے آزاد کرایا ہے، ولاء (حق وراثت) سے آزاد نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا أبو سعيد بن عمرو من بني أمية مجهول وأبو بكر بن أبي مريم ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3165]»
اس اثر کی سند ضعیف جدا ہے، کیوں کہ ابوسعید بن عمرو بن بنی امیہ مجہول اور ابوبکر بن ابی مریم ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [سنن سعيد بن منصور 228] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا أبو سعيد بن عمرو من بني أمية مجهول وأبو بكر بن أبي مريم ضعيف
منصور نے خبر دی، ابراہیم و شعبی رحمہما اللہ دونوں نے کہا: سائبہ کے ولاء اور ہبہ کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3166]»
اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 519، 11666]۔ اس کی تفصیل آگے باب بیع الولاء میں آ رہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
قاسم نے کہا: ایک آدمی نے ایک غلام سائبہ کے طور پر آزاد کیا اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنا غلام سائبہ کے طور پر آزاد کر دیا تھا اور یہ اس کا مال (ترکہ) ہے؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تمہارے لئے ہے (یعنی تمہارا حق ہے)، اس نے کہا: مجھے اس کی ضرورت نہیں، انہوں نے جواب میں کہا: رکھے رہو، یہاں بہت سے وارث موجود ہیں۔
تخریج الحدیث: «المسعودي عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة ضعيف والقاسم بن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود لم يدرك جده، [مكتبه الشامله نمبر: 3167]»
اس اثر کی سند میں المسعودی عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عتبہ ضعیف اور قاسم بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن مسعود نے اپنے دادا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: المسعودي عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة ضعيف والقاسم بن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود لم يدرك جده
|