من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 2. باب مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ: حقیقی باپ کے بجائے کسی غیر کو باپ بنانا
سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے شعبہ نے کہا اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے تیر چلایا، اور سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ وہ ہیں جو طائف کے قلعہ پر چڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اترے تھے، ان دونوں صحابیوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعوی کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2902]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4326، 4327]، [مسلم 63]، [أبوداؤد 5113]، [ابن ماجه 2610]، [أبويعلی 700، 706]، [ابن رجب 415، 416] وضاحت:
(تشریح حدیث 2893) فرائض کے ابواب میں یہ حدیث اور بعد والی احادیث ذکر کرنے سے غالباً امام دارمی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ ترکہ اور میراث حاصل کرنے کے لئے کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کو اپنا باپ ہونے کا دعویٰ کرے تو یہ بہت بڑا بھیانک گناہ ہے، ایسے شخص پر جنّت حرام ہوگی، کیوں کہ ایک تو اس نے جھوٹ کا ارتکاب کیا، پھر اپنے حقیقی باپ کی باپتا سے انکار کیا اور غیر کا مال غصب کرنا چاہا، اس لئے جنّت اس پر حرام ہے۔ بخاری شریف کی دوسری روایت [بخاري 6768] میں ہے: اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے، جس نے اپنے باپ سے منہ موڑا تو یہ کفر ہے، یعنی اس نے کفر کا ارتکاب کیا اور کافر کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: غیر معروف نسب کا دعویٰ کرنا اللہ کے ساتھ کفر ہے، اسی طرح کسی نسب سے براءت ظاہر کرنا چاہے وہ ذرا سا ہی ہو اللہ کے ساتھ کفر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2903]»
اس اثر کی سندعلی شرط البخاری ہے، پہلے جملے کا شاہد بخاری میں موجود ہے، دوسرا جملہ بھی معنی کے لحاظ سے صحیح ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [ابن أبى شيبه 6160]، [طبراني فى الأوسط 8570]، [مجمع الزوائد 350، 352] و [الخطيب 144/3] و [ابن عدي فى الكامل 1710/7] وضاحت:
(تشریح حدیث 2894) اپنے آپ کو کسی دوسرے خاندان یا قبیلے کی طرف منسوب کرنا، کسی قبیلے یا خاندان کا فرد ہونے کے باوجود اس سے انکار کرنا، دونوں صورتیں حرام ہیں، مثلاً کوئی بزاز، حجام یا حداد قبیلے کا فرد شرم کے مارے اپنے قبیلے سے انکار کرے یا اپنا نام کسی ایسے قبیلے کی طرف منسوب کرے جو اس کا خاندان و قبیلہ ہے ہی نہیں، جیسے قریشی، ہاشمی یا سید وغیرہ لگا کر لوگ اپنا انتساب ان معزز قبائل کی طرف کرتے ہیں تاکہ عزت و وقار ملے تو ایسا کرنا الله تعالیٰ کے ساتھ کفر ہے، جھوٹ اور افتراء ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
اس سند سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2904]»
اس روایت کی سند بھی علی شرط البخاری ہے، لیکن طبرانی میں یہ روایت سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ دیکھئے: [طبراني 261/17، 719] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
قیس بن ابی حازم نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لوں، لیکن جب (مدینہ) پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام (خلیفہ) تھے، پس انہوں نے بہت مدح سرائی کی اور بہت روئے اور کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”معمولی سے نسب کا بھی انکار کرنا اللہ کے ساتھ کفر ہے، اور غیر معروف (نا معلوم) نسب کا دعویٰ کرنا بھی اللہ کے ساتھ کفر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده تالف، [مكتبه الشامله نمبر: 2905]»
اس روایت کی سند بہت ضعیف ہے، گرچہ طبرانی نے [الأوسط 2839] میں اور ہیثمی نے [مجمع الزوائد 352] میں اسے ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده تالف
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی اپنے باپ کے بجائے کسی اور (شخص) کے باپ ہونے کا دعویٰ کرے، یا اپنا مولی (آزاد کرنے والا) بنائے کسی اور کو ایسے لوگوں کے سوا جنہوں نے اسے آزاد کیا تو اس پر قیامت تک اللہ کی، اللہ کے فرشتوں کی، اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا کوئی عمل یا مال قابلِ قبول نہیں ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل شهر بن حوشب ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2906]»
اس حدیث کی سند حسن ہے، اور متن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2609، وليس فيه الجملة الاخيرة]، [أبويعلی 2540]، [ابن حبان 417]، [موارد الظمآن 1217]، [ابن أبى شيبه 727/8، 6162] وضاحت:
(تشریح احادیث 2895 سے 2898) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے اس پر لعنت ہے، اسی طرح جو شخص اپنے آپ کو ایسے آقا و سید کی طرف منسوب کرے جس نے اس کو آزاد نہیں کیا اس پر بھی اللہ تعالیٰ اور فرشتے و تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے، اور ایسے شخص کا کوئی بھی عمل، نہ عبادت، نہ صدقات و خیرات کچھ بھی قبول نہ ہو نگے۔ یہ تمام احادیث و آثار اس لئے ذکر کئے گئے کہ کوئی شخص ترکہ اور میراث حاصل کرنے کے لئے کسی غیر کو اپنا باپ نہ بنائے ورنہ اس پر لعنت ہی لعنت ہے اور وہ جہنم کا ایندھن ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل شهر بن حوشب ولكن الحديث صحيح
|