من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 24. باب في ابْنِ الْمُلاَعَنَةِ: لعان کرنے والے میاں بیوی کے بیٹے کی وراثت کا بیان
ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لعان کے بیٹے کے بارے میں کہا کہ اس کی میراث ماں کے لئے ہوگی۔
یعنی ولد الزنا کی طرح باپ اس کا وارث نہ ہوگا۔ تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 2993]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن ابراہیم رحمہ اللہ و سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے درمیان انقطاع ہے۔ ابومعشر کا نام زیاد بن کلیب ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11368]، [عبدالرزاق 12479]، [الحاكم 341/4]، [البيهقي 258/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع
ابراہیم بن طہمان نے کہا: میں نے سنا ایک آدمی نے عطاء بن ابی رباح سے لعان کرنے والوں کی اولاد کے بارے میں پوچھا کہ ان کی میراث کس کے لئے ہوگی؟ انہوں نے کہا: اس کی ماں اور ماں کی آل اولاد کے لئے ہوگی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2994]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 12483] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابن الملاعنہ (یعنی جو لڑکا لعان کے بعد پیدا ہوا اس کے) بارے میں کہا: جس نے اپنا مادری بھائی اور ماں چھوڑی: مادری بھائی کو چھٹا حصہ اور ماں کے لئے تہائی (ثلث) ہے، پھر باقی ان پر تقسیم ہوگا تو بھائی کے لئے ثلث ہو جائے گا اور ماں کے لئے دو ثلث ہو جائیں گے، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: بھائی چھٹا حصہ اور جو بچے گا وہ سب ماں کا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي سهل محمد بن سالم، [مكتبه الشامله نمبر: 2995]»
ابوسہل محمد بن سالم کی وجہ سے یہ اثر ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11383]، [البيهقي 258/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي سهل محمد بن سالم
امام شعبی رحمہ اللہ سے ابن الملاعنہ کے بارے میں مروی ہے: جس نے بھتیجا اور دادا (یا نانا) کو چھوڑا، کہا کہ سارا مال بھتیجے کا ہوگا۔ (کیونکہ لعان کے بعد دادا کی نسبت صحیح نہیں، لہٰذا وہ وارث نہ ہوں گے۔ واللہ اعلم)
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي سهل محمد بن سالم، [مكتبه الشامله نمبر: 2996]»
ابوسہل کی وجہ سے اس اثر کی سند بھی ضعیف ہے۔ حوالہ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11382] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي سهل محمد بن سالم
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ابن الملاعنہ کی میراث کے بارے میں ہے کہ ماں کے لئے ایک تہائی، باقی دو تہائی بیت المال کے لئے ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2997]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 12485]، [البيهقي 258/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے (ابن الملاعنہ کی میراث کے بارے میں) کہا: اس کی میراث اس کی ماں کے لئے ہے، ماں کے جو عصبہ ہیں وہ اس سے دیت ادا کریں گے (اگر دیرت ہوتو)۔
اور قتاده رحمہ اللہ نے کہا: حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے: ثلث ماں کے لئے اور باقی مال اس کی ماں کے عصبہ کا ہے۔ تخریج الحدیث: «إسناده منقطع إبراهيم لم يسمع عبد الله بن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 2998]»
اس اثر کی سند میں انقطاع ہے۔ ابراہیم رحمہ اللہ نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا۔ حوالہ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11365، 11369]، [ابن منصور 119]، [الحاكم 341/4]، [البيهقي 258/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 2981 سے 2988) کوئی وارث نہ ہونے کی صورت میں کل مال سمیٹنے والے کو عصبہ کہتے ہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع إبراهيم لم يسمع عبد الله بن مسعود
قتاده رحمہ اللہ نے خبر دی کہ سیدنا علی اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے ولد الملاعنہ کے بارے میں کہا: جس نے جدہ اور اپنے اخیافی (مادری بھائی) چھوڑے، جدہ (ام الام) کے لئے ثلث اور مادری بھائیوں کے لئے باقی بچے دو ثلث ہیں، اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: نانی کو سدس اور مادری بھائیوں کو ثلث، اور جو بچے وہ بیت المال میں جمع ہوگا۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع قتادة لم يسمع من علي ولا من ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 2999]»
قتادہ رحمہ اللہ نے سیدنا علی و سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے نہیں سنا اس لئے یہ اثر منقطع ہے۔ دیگر طرق بھی ضعیف ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [ابن منصور 119]، [البيهقي 258/6، 259] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع قتادة لم يسمع من علي ولا من ابن مسعود
حسن رحمہ اللہ نے کہا: اس کی ماں یعنی ابن الملاعنہ کی ماں وارث ہوگی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3000]»
اس اثر کی سند حسن رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ یہ اثر (3001) پرآگے آ رہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
اس سند سے بھی مثلِ سابق مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3001]»
اس حدیث کی سند حجاج بن ارطاة کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11405]، [عبدالرزاق 12486] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
عبداللہ بن عبيد بن عمیر نے کہا: میں نے بنی زریق میں اپنے بھائی کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن الملاعنہ کے بارے میں کیا فیصلہ کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ ماں کے حق میں کیا، کیوں کہ لعان کے بعد ماں ہی لڑکے کے لئے ماں اور باپ کی جگہ ہے۔
اور سفیان نے کہا: سارا مال ماں کے لئے ہوگا کیوں کہ ”ماں“ ماں باپ دونوں کے درجہ میں ہوگی۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3002]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 9132، 11374]، [عبدالرزاق 12476، 12477]، [الحاكم 341/4]، [البيهقي 259/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حسن رحمہ اللہ سے ابن الملاعنہ کے بارے میں مروی ہے: جس نے اپنے پیچھے اپنی ماں اور ماں کے عصبہ چھوڑے، انہوں نے کہا: ماں کے لئے ثلث ہے اور جو بچے وہ ماں کے عصبہ کے لئے ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3003]»
اس اثر کی سند حسن رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11383]، [البيهقي 258/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
سیدنا علی اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا: ابن الملاعنہ کے عصبہ اس کی ماں کے عصبہ ہیں (یعنی وارث موجود نہ ہونے کی صورت میں سارا مال ان کا ہوگا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 3004]»
اس اثر کی سند میں محمد بن ابی لیلیٰ سیٔ الحفظ جدا ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11375]، [عبدالرزاق 12482، ومن طريقه الطبراني فى الكبير 390/9، 9663]، [ابن منصور 120]، [البيهقي 258/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا
یونس نے کہا کہ حسن رحمہ اللہ کہتے تھے: ولد الملاعنہ کی میراث اس کی ماں کے لئے ہے، یونس نے کہا: میں نے کہا اگر اس کا مادری بھائی بھی موجود ہو تو؟ کہا: اگر اس کا مادری بھائی ہو تو اس کے لئے سدس ہوگا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3005]»
اس اثر کی سند حسن رحمہ اللہ تک جید ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد إلى الحسن
امام زہری رحمہ اللہ نے بیان کیا: ولد الملاعنہ: اس کی ماں اس کی وارث ہوگی اور اپنا حصہ اس کے مال سے لے گی، اور یہ سب مال بیت المال میں جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الزهري، [مكتبه الشامله نمبر: 3006]»
اس اثر کی سند زہری رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11370]، [عبدالرزاق 12484]، [كنزل العمال 40608] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الزهري
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر میاں بیوی لعان کریں تو ان کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی، پھر وہ کبھی بھی میاں بیوی نہ بن سکیں گے، اور لڑکا ماں کی طرف منسوب ہوگا، یہ کہا جائے گا کہ فلاں عورت کا لڑکا ہے، وہ (ملاعنہ عورت) اس لڑکے کے لئے عصبہ ہوگی، وہ لڑکا اس کا وارث ہوگا اور وہ لڑکے کی وارث ہوگی۔ اور جس نے اس لڑکے کو ولد الزنا کا طعنہ دیا تو اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ (اسّی کوڑے تہمت لگانے کے ہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيدة، [مكتبه الشامله نمبر: 3007]»
موسیٰ بن عبید کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11376]، [عبدالرزاق 12478] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيدة
شیبانی (سلیمان بن ابی سلیمان) نے شعبی رحمہ اللہ سے ولد المتلاعنین کے بارے میں بیان کیا کہ اس کی ماں کے عصبہ اس کے وارث ہوں گے اور اس کی طرف سے دیت ادا کریں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3008]»
اس اثر کی سند شعبی رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11367] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الشعبي
سعید بن جبیر سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ولد المتلاعنہ کے بارے میں روایت کیا: جس کا باپ (معلوم) نہ ہو اس کی ماں اور اس کے مادری بھائی اور اس کی ماں کے عصبہ اس کے وارث ہوں گے، اگر اس کو کوئی زنا کی تہمت لگائے گا تو اس کو کوڑے مارے جائیں گے (اسّی کوڑے تہمتِ زنا کے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى ابن عباس، [مكتبه الشامله نمبر: 3009]»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ہمام: ابن یحییٰ اور عزرہ: ابن عبدالرحمٰن ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 8522]، [البيهقي 402/7، فى كتاب اللعان، باب سنة اللعان و نفى الولد] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى ابن عباس
نعمان سے مروی ہے مکحول رحمہ اللہ سے ولد الملاعنہ کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا کہ کس کے لئے ہوگی؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی میراث کو ماں کے لئے خاص کیا کیوں کہ اس کی وجہ سے ہی وہ اس (لعان کی) مصیبت میں گرفتار ہوئی، اور اس کی (میراث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) مادری بھائیوں کے لئے خاص کیا۔
مکحول رحمہ اللہ نے کہا: اگر ماں فوت ہو جائے اور اپنا بیٹا چھوڑ جائے، پھر اس کا بیٹا بھی فوت ہو جائے جس کے لئے میراث تھی، تو اس کی میراث مادری بھائیوں کے لئے ہوگی، کیوں کہ یہ میراث ان (مادری بھائیوں کی) ماں اور نانا کے لئے ہے، اور نانا کے لئے اس کی نواسی کی میراث میں سے چھٹا حصہ ہوگا، اور نانا صرف اسی صورت میں وارث ہوگا اس لئے کہ وہ ماں کا باپ ہے، اور مادری بھائی اپنی ماں کے اور نانا اپنی بیٹی کا وارث ہوگا، کیونکہ اس (متلاعن بیٹے) کی میراث ماں کے لئے ہے، پس جو مال اس لڑکے کا ہے وہ ماں کے وارثین کا ہے، اگر کوئی دوسرا وارث نہ ہوتو کل میراث نانا کے قبضہ میں ہوگی۔ تخریج الحدیث: «إسناده إلى محكول صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3010]»
اس حدیث کی سند مکحول رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2907]، [ابن أبى شيبه 11364، مختصرًا] و [البيهقي 259/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده إلى محكول صحيح
عکرمہ سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ کچھ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس متلاعنین کے لڑکے کا جھگڑا لے کر آئے تو اس (ولد الملاعنہ) کے باپ کی طرف کے لوگ (عصبہ) بھی اپنی میراث کا مطالبہ کرنے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے باپ نے اس سے بیزاری اختیار کی (اس لئے) اس کی میراث میں سے تمہارے لئے کچھ نہیں ہے۔ اور انہوں نے اس کی میراث کا فیصلہ اس (ولد الملاعنہ) کی ماں کے حق میں دیا اور ماں کو اس کا عصبہ قرار دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب، [مكتبه الشامله نمبر: 3011]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے کیوں کہ سماک کی روایت عکرمہ سے مضطرب ہے، لیکن یہ فیصلہ سہی ہے۔ دیکھئے: [البيهقي 258/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 2988 سے 3001) لعان يا ملاعنہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کے حمل کا انکاری ہو، چار گواہ نہ لانے کی صورت میں لعان کے بعد حاکم میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دے گا، اس کی تفصیل کتاب النکاح میں گذر چکی ہے۔ اس صورت میں لڑکا ماں کی طرف منسوب ہوگا اور اس کی میراث ماں اور ماں جائے بھائی اور ماں کے عصبہ کی طرف ہی منتقل ہوگی، باپ کیوں کہ اس کا انکاری تھا اس لئے باپ یا اس کے قریبی اس ولد ملاعن کے وارث نہ ہوں گے۔ ان تمام آثار کا لب لباب یہ ہی ہے جیسا کہ ضعیف حدیث میں ہے: «إنه يرث أمه وترثه» یعنی وہ اپنی ماں کا وارث ہے اور اس کی ماں اس کی وارث ہے۔ جمہور علماءکا اسی پر عمل ہے۔ والله اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب
|