(حديث مرفوع) حدثنا روح بن عبادة ، قال: اخبرنا زكريا بن إسحاق ، قال: حدثنا عمرو بن دينار ، عن نافع بن جبير بن مطعم ، عن ابي شريح الخزاعي ، وكانت له صحبة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليكرم ضيفه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليحسن إلى جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليقل خيرا او ليصمت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ".
سیدنا ابوشریح خزاعی سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہواسے اپنے مہمان کا آ کرام کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہواسے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہواسے اچھی بات کہنی چاہیے یا پھر خاموش رہنا چاہیے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عبد الحميد بن جعفر ، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن ابي شريح الخزاعي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الضيافة ثلاثة ايام، وجائزته يوم وليلة، ولا يحل للرجل ان يقيم عند احد حتى يؤثمه"، قالوا: يا رسول الله، فكيف يؤثمه؟، قال:" يقيم عنده وليس له شيء يقريه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَحَدٍ حَتَّى يُؤْثِمَهُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَيْفَ يُؤْثِمُهُ؟، قَالَ:" يُقِيمُ عِنْدَهُ وَلَيْسَ لَهُ شَيْءٌ يَقْرِيهِ".
سیدنا ابوشریح سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ضیافت تین دن تک ہو تی ہے اور جائزہ (پرتکلف دعوت) صرف ایک دن ایک رات تک ہو تی ہے اور کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی شخص کے یہاں اتناعرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ گار کر دے لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! گناہ گار کس طرح ہو گا فرمایا: وہ اس کے یہاں ٹھہرے اور اس کے پاس مہمان نوازی کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج وروح ، قالا: حدثنا ابن ابي ذئب ، عن سعيد المقبري ، عن ابي شريح الكعبي ، وقال: روح، عن ابي هريرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" والله لا يؤمن، والله لا يؤمن، والله لا يؤمن"، قالها ثلاث مرات، قالوا: وما ذاك يا رسول الله؟، قال:" الجار لا يامن الجار بوائقه"، قالوا: وما بوائقه؟، قال:" شره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ وَرَوْحٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ ، وَقَالَ: رَوْحٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ"، قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالُوا: وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:" الْجَارُ لَا يَأْمَنُ الْجَارُ بَوَائِقَهُ"، قَالُوا: وَمَا بَوَائِقُهُ؟، قَالَ:" شَرُّهُ".
سیدنا ابوشریح سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ قسم کھا کر یہ جملہ دہرایا کہ وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! کون شخص فرمایا: جس کے پڑوسی اس کے بوائق سے محفوظ نہ ہوں صحابہ نے بوائق کا معنی پوچھا: تو فرمایا: شر۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، قال: حدثنا ليث ، قال: حدثني سعيد يعني المقبري ، عن ابي شريح العدوي ، انه قال لعمرو بن سعيد: وهو يبعث البعوث إلى مكة: ائذن لي ايها الامير احدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح، سمعته اذناي، ووعاه قلبي، وابصرته عيناي حين تكلم به ان حمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" إن مكة حرمها الله، ولم يحرمها الناس، فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر ان يسفك بها دما، ولا يعضد بها شجرة، فإن احد ترخص لقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها، فقولوا: إن الله عز وجل اذن لرسوله ولم ياذن لكم، إنما اذن لي فيها ساعة من نهار، وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالامس، وليبلغ الشاهد الغائب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ يَعْنِي الْمَقْبُرِيَّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ: وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ حَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، إِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ".
سیدنا ابوشریح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عمرو بن سعید ایک لشکر مکہ مکر مہ کی طرف بھیج رہا تھا میں نے کہا اے امیر آپ سے رسول اللہ کی ایک حدیث بیان کرنے کی اجازت چاہتا ہوں جو آپ نے فتح مکہ کے دوسرے روز ارشاد فرمائی تھی اور میں نے اپنے کانوں سے اس کو سنا تھا اور دل سے یاد کیا تھا اور آنکھوں سے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے دیکھا ہے آپ نے اللہ کی حمدوثناء کرنے کے بعد فرمایا: تھا کہ مکہ مکر مہ کو اللہ نے حرم بنایا ہے آدمیوں نے حرم نہیں لہذا جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہواس کو یہاں خون ریزی نہ کرنا چاہیے نہ یہاں کے درخت کاٹنا چاہے اگر کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کرنے سے یہاں کی خون ریزی کے جواز پر استدلال کر ے تو اس سے کہہ دو کہ اللہ نے اپنے رسول کو خاص طور پر اجازت دی تھی اور وہ اجازت بھی دن میں صرف ایک ساعت کے لئے تھی اب دوبارہ اس کی حرمت ویسے ہی ہو گئی ہے جس طرح کل تھی یہ حکم حاضرین غائبین تک پہنچا دیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج وابو كامل ، قالا: حدثنا ليث يعني ابن سعد ، قال: حدثني سعيد بن ابي سعيد ، عن ابي شريح العدوي ، انه قال: سمعت اذناي وابصرت عيناي حين تكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته" قالوا: وما جائزته يا رسول الله؟، قال:" يوم وليلة، والضيافة ثلاث، فما كان وراء ذلك فهو صدقة عليه"، وقال:" من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا او ليصمت" وقال ابو كامل:" ولا يثوي عنده حتى يحرجه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ وَأَبُو كَامِلٍ ، قالا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعَتْ أُذُنَايَ وَأَبْصَرَتْ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ" قَالُوا: وَمَا جَائِزَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:" يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثٌ، فَمَا كَانَ وَرَاءَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ عَلَيْهِ"، وَقَالَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ" وَقَالَ أَبُو كَامِلٍ:" وَلَا يَثْوِي عِنْدَهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ".
سیدنا ابوشریح سے مروی ہے کہ میں نے اپنے کانوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اور آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جو شخص اللہ پر آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہواسے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے جو شخص اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہواس کو اپنے مہمان کا آ کرام جائزہ سے کرنا چاہیے صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! جائزہ سے کیا مراد ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ضیافت تین دن تک ہو تی ہے اور جائزہ (پرتکلف دعوت) صرف ایک دن ایک رات ہو تی ہے اس سے زیادہ جو ہو گا وہ اس پر صدقہ ہو گا اور جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہوں اسے اچھی بات کہنی چاہیے یا پھر خاموش رہنا چاہیے اور کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی شخص کے یہاں اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ گار کر دے۔
سیدنا ابوشریح سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا خون بہا دیا جائے یا اسے زخمی کر دیا جائے اسے تین میں سے کسی ایک بات کا اختیار ہے یا تو قصاص لے لے یادیت وصول کر لے یا پھر معاف کر دے اگر وہ ان کے علاوہ کوئی چوتھی صورت اختیار کرنا چاہتا ہے تو اس کے ہاتھ پکڑ لو اگر وہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کر لیتا ہے پھر اس کے بعد سرکشی کرتے ہوئے قتل بھی کر دیتا ہے تو اس کے لئے جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف سفيان بن أبى العوجاء
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير . قال: حدثني ابي: قال: سمعت يونس يحدث، عن الزهري ، عن مسلم بن يزيد ؛ احد بني سعد بن بكر، انه سمع ابا شريح الخزاعي ، ثم الكعبي، وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول: اذن لنا رسول الله يوم الفتح في قتال بني بكر حتى اصبنا منهم ثارنا وهو بمكة، ثم امر رسول الله صلى الله عليه وسلم برفع السيف، فلقي رهط منا الغد رجلا من هذيل في الحرم يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليسلم وكان قد وترهم في الجاهلية، وكانوا يطلبونه، فقتلوه، وبادروا ان يخلص إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيامن، فلما بلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم غضب غضبا شديدا، والله ما رايته غضب غضبا اشد منه، فسعينا إلى ابي بكر وعمر وعلي رضي الله عنهم نستشفعهم، وخشينا ان نكون قد هلكنا، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، قام، فاثنى على الله عز وجل بما هو اهله، ثم قال:" اما بعد، فإن الله عز وجل هو حرم مكة، ولم يحرمها الناس، وإنما احلها لي ساعة من النهار امس، وهي اليوم حرام كما حرمها الله عز وجل اول مرة، وإن اعتى الناس على الله عز وجل ثلاثة رجل قتل فيها، ورجل قتل غير قاتله، ورجل طلب بذحل في الجاهلية، وإني والله لادين هذا الرجل الذي قتلتم"، فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ . قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي: قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ يُحَدِّثُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَزِيدَ ؛ أَحَدِ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيَّ ، ثُمَّ الْكَعْبِيَّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: أَذِنَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ يَوْمَ الْفَتْحِ فِي قِتَالِ بَنِي بَكْرٍ حَتَّى أَصَبْنَا مِنْهُمْ ثَأْرَنَا وَهُوَ بِمَكَّةَ، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَفْعِ السَّيْفِ، فَلَقِيَ رَهْطٌ مِنَّا الْغَدَ رَجُلًا مِنْ هُذَيْلٍ فِي الْحَرَمِ يَؤُمُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُسْلِمَ وَكَانَ قَدْ وَتَرَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانُوا يَطْلُبُونَهُ، فَقَتَلُوهُ، وَبَادَرُوا أَنْ يَخْلُصَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْمَنَ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ غَضِبَ غَضَبًا أَشَدَّ مِنْهُ، فَسَعَيْنَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ وعُمَرَ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ نَسْتَشْفِعُهُمْ، وَخَشِينَا أَنْ نَكُونَ قَدْ هَلَكْنَا، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاةَ، قَامَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ هُوَ حَرَّمَ مَكَّةَ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، وَإِنَّمَا أَحَلَّهَا لِي سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ أَمْسِ، وَهِيَ الْيَوْمَ حَرَامٌ كَمَا حَرَّمَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوَّلَ مَرَّةٍ، وَإِنَّ أَعْتَى النَّاسِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثَةٌ رَجُلٌ قَتَلَ فِيهَا، وَرَجُلٌ قَتَلَ غَيْرَ قَاتِلِهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَ بِذَحْلٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَدِيَنَّ هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي قَتَلْتُمْ"، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابوشریح سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بنوبکر سے قتال کرنے کی اجازت دیدی چنانچہ ہم نے ان سے اپنا انتقام لیا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکر مہ میں ہی تھے پھر آپ نے ہمیں تلوار اٹھالینے کا حکم دیا اگلے دن ہمارے ایک گروہ کو حرم شریف میں بنوہذیل کا ایک آدمی ملا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے کے ارادے سے جارہا تھا اس نے زمانہ جاہلیت میں انہیں بہت نقصان پہنچایا تھا اور وہ اس کی تلاش میں تھے اس لئے انہوں نے قبل اس کے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا اور اپنے لئے پروانہ امن حاصل کرتا اسے قتل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کے اطلاع ملی تو آپ انتہائی ناراض ہوئے واللہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ غصے کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا ہم لوگ جلدی سے سیدنا ابوبکر عمرو اور علی کے پاس گئے تاکہ ان سے سفارش کی درخواست کر یں اور ہم اپنی ہلاکت کے خوف سے لرز رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہو نے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء بیان کی جو اس کے شایان شان ہو بیان فرمائی امابعد کہہ کر فرمایا کہ مکہ مکر مہ کو اللہ نے ہی حرم قرار دیا ہے انسانوں نے نہیں میرے لئے بھی کل کے دن صرف کچھ دیر کے لئے اس میں قتال کو حلال کیا گیا تھا اور اب وہ اسی طرح قابل احترام ہے جیسے ابتداء میں اللہ نے اسے حرم قرار دیا تھا اور اللہ کے نزدیک تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش تین طرح کے لوگ ہیں۔ ١۔ حرم میں کسی کو قتل کرنے والا۔ ٢۔ اپنے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے والا۔ ٣۔ زمانہ جاہلیت کے خون کا قصاص لینے والا۔ اور واللہ میں اس شخص کی دیت ضرور ادا کر وں گا جسے تم نے قتل کیا ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت ادا کر دی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: «وإن أعتى الناس على الله...... فى الجاهلية» فحسن لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهاله مسلم بن يزيد
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن ابي شريح الخزاعي ، قال: لما بعث عمرو بن سعيد إلى 60 مكة 60 بعثه يغزو ابن الزبير، اتاه ابو شريح، فكلمه واخبره بما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم خرج إلى نادي قومه، فجلس فيه، فقمت إليه، فجلست معه، فحدث قومه كما حدث عمرو بن سعيد، ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعما قال له عمرو بن سعيد، قال: قلت: هذا إنا كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افتتح مكة، فلما كان الغد من يوم الفتح عدت خزاعة على رجل من هذيل، فقتلوه، وهو مشرك، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا خطيبا، فقال:" يا ايها الناس، إن الله عز وجل حرم مكة يوم خلق السماوات والارض، فهي حرام من حرام الله تعالى إلى يوم القيامة، لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر ان يسفك فيها دما، ولا يعضد بها شجرا، لم تحلل لاحد كان قبلي، ولا تحل لاحد يكون بعدي، ولم تحلل لي إلا هذه الساعة، غضبا على اهلها، الا ثم قد رجعت كحرمتها بالامس، الا فليبلغ الشاهد منكم الغائب، فمن قال لكم: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قاتل بها، فقولوا: إن الله عز وجل قد احلها لرسوله ولم يحللها لكم. يا معشر خزاعة، وارفعوا ايديكم عن القتل، فقد كثر ان يقع، لئن قتلتم قتيلا لادينه، فمن قتل بعد مقامي هذا فاهله بخير النظرين إن شاءوا فدم قاتله، وإن شاءوا فعقله"، ثم ودى رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل الذي قتلته خزاعة. فقال عمرو بن سعيد لابي شريح: انصرف ايها الشيخ، فنحن اعلم بحرمتها منك، إنها لا تمنع سافك دم، ولا خالع طاعة، ولا مانع جزية، قال: فقلت: قد كنت شاهدا، وكنت غائبا، وقد بلغت، وقد امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبلغ شاهدنا غائبنا، وقد بلغتك فانت وشانك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: لَمَّا بَعَثَ عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ إِلَى 60 مَكَّةَ 60 بَعْثَهُ يَغْزُو ابْنَ الزُّبَيْرِ، أَتَاهُ أَبُو شُرَيْحٍ، فَكَلَّمَهُ وَأَخْبَرَهُ بِمَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى نَادِي قَوْمِهِ، فَجَلَسَ فِيهِ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَجَلَسْتُ مَعَهُ، فَحَدَّثَ قَوْمَهُ كَمَا حَدَّثَ عَمْرَو بْنَ سَعِيدٍ، مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَمَّا قَالَ لَهُ عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: قُلْتُ: هَذَا إِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ مَكَّةَ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ عَدَتْ خُزَاعَةُ عَلَى رَجُلٍ مِنْ هُذَيْلٍ، فَقَتَلُوهُ، وَهُوَ مُشْرِكٌ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا خَطِيبًا، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهِيَ حَرَامٌ مِنْ حَرَامِ اللَّهِ تَعَالَى إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ فِيهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرًا، لَمْ تَحْلِلْ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي، وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ يَكُونُ بَعْدِي، وَلَمْ تَحْلِلْ لِي إِلَّا هَذِهِ السَّاعَةَ، غَضَبًا عَلَى أَهْلِهَا، أَلَا ثُمَّ قَدْ رَجَعَتْ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، أَلَا فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ مِنْكُمْ الْغَائِبَ، فَمَنْ قَالَ لَكُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَاتَلَ بِهَا، فَقُولُوا: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَحَلَّهَا لِرَسُولِهِ وَلَمْ يُحْلِلْهَا لَكُمْ. يَا مَعْشَرَ خُزَاعَةَ، وَارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ عَنِ الْقَتْلِ، فَقَدْ كَثُرَ أَنْ يَقَعَ، لَئِنْ قَتَلْتُمْ قَتِيلًا لَأَدِيَنَّهُ، فَمَنْ قُتِلَ بَعْدَ مَقَامِي هَذَا فَأَهْلُهُ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِنْ شَاءُوا فَدَمُ قَاتِلِهِ، وَإِنْ شَاءُوا فَعَقْلُهُ"، ثُمَّ وَدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَ الَّذِي قَتَلَتْهُ خُزَاعَةُ. فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ لِأَبِي شُرَيْحٍ: انْصَرِفْ أَيُّهَا الشَّيْخُ، فَنَحْنُ أَعْلَمُ بِحُرْمَتِهَا مِنْكَ، إِنَّهَا لَا تَمْنَعُ سَافِكَ دَمٍ، وَلَا خَالِعَ طَاعَةٍ، وَلَا مَانِعَ جِزْيَةٍ، قَالَ: فَقُلْتُ: قَدْ كُنْتُ شَاهِدًا، وَكُنْتَ غَائِبًا، وَقَدْ بَلَّغْتُ، وَقَدْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبَلِّغَ شَاهِدُنَا غَائِبَنَا، وَقَدْ بَلَّغْتُكَ فَأَنْتَ وَشَأْنُكَ.
ضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ جب عمرو بن سعید نے سیدنا عبداللہ بن زبیر سے مقابلے کے لئے مکہ کی طرف اپنالشکر روانہ کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اس کے پاس گئے اور اس سے بات کی اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے متعلق بتایا پھر اپنی قوم کی مجلس میں آ کر بیٹھ گئے میں بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور پھر عمرو بن سعید کا جواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اس سے کہا کہ اے فلاں۔ فتح مکہ کے موقع پر ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے فتح مکہ کے اگلے دن بنوخزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک آدمی پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا وہ مقتول مشرک تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ لوگو اللہ نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا: تھا اسی دن مکہ کو حرم قرار دیا تھا لہذا وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی آدمی کے لئے اس میں خون ریزی کرنا اور درخت کاٹنا جائز نہیں ہے یہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہو گا اور میرے لئے بھی صرف اس مختصر وقت کے لئے حلال تھا جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں پر اللہ کا غضب تھا یاد رکھو کہ اب اس کی حرمت لوٹ کر کل کی طرح ہو چکی ہے یادر کھوتم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ غائبین تک پہنچادیں اور جو شخص تم سے یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو مکہ میں قتال کیا تھا تو کہہ دینا کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اسے حلال کیا تھا تمہارے لئے نہیں کیا اے گروہ خزاعہ اب قتل سے اپنے ہاتھ اٹھالو کہ بہت ہو چکا ہے اس سے پہلے تم نے جس شخص کو قتل کیا ہے میں اس کی دیت دے دوں گا لیکن اس جگہ پر میرے کھڑے ہو نے کے بعد جو شخص کسی کو قتل کر ے گا تو مقتول کے ورثا کو دو میں سے ایک بات کا اختیار ہو گا۔ یاتوقاتل سے قصاص لے لیں یا پھر دیت لے لیں اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کی دیت ادا کر دی جسے بنوخزاعہ نے قتل کر دیا تھا۔ یہ حدیث سن کر عمرو بن سعید نے سیدنا ابوشریح سے کہا بڑے میاں آپ واپس چلے جائیں ہم اس کی حرمت آپ سے زیادہ جانتے ہیں یہ حرمت کسی خون ریزی کرنے والے اطاعت چھوڑنے والے اور جزیہ روکنے والے کی حفاظت نہیں کر سکتی میں نے اس سے کہا کہ میں اس موقع پر موجود تھا تم غائب تھے اور ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غائبین تک اسے پہنچانے کا حکم دیا تھا سو میں نے یہ حکم پہنچادیا اب تم جانو اور تمہارا کام جانے۔
سیدنا ابوشریح سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش تین طرح کے لوگ ہیں۔ ١۔ حرم میں کسی کو قتل کرنے والا۔ ٢۔ اپنے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے والا۔ ٣۔ زمانہ جاہلیت کے خون کا قصاص لینے والا۔ اور واللہ میں اس شخص کی دیت ضرور ادا کر وں گا جسے تم نے قتل کیا ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت ادا کر دی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالرحمن بن إسحاق ليس ممن يعتمد على حفظه إذا خالف، وقد خولف. والجملۃ الأولي حسن لغيره، كما برقم: 16376، والجمله الأخري: «أو بصر ......» صحيحۃ من حديث ابن عمر.