(حديث مرفوع) حدثنا روح ، قال: حدثنا سعيد ، وعبد الوهاب ، قال: اخبرنا سعيد، عن قتادة ، عن الحسن ، عن الاسود بن سريع ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية يوم حنين. قال روح: فاتوا حيا من احياء العرب، فذكر الحديث، قال:" والذي نفسي بيده ما من نسمة تولد إلا على الفطرة حتى يعرب عنها لسانها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً يَوْمَ حُنَيْنٍ. قَالَ رَوْحٌ: فَأَتَوْا حَيًّا مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ نَسَمَةٍ تُولَدُ إِلَّا عَلَى الْفِطْرَةِ حَتَّى يُعْرِبَ عَنْهَا لِسَانُهَا".
سیدنا اسود بن سریع سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے موقع پر ایک دستہ روانہ فرمایا: پھر روای نے پوری حدیث ذکر کی کہ اور کہا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد کی جان ہے جو روح بھی دنیا میں جنم لے کر آتی ہے وہ فطرت پر پیدا ہو تی ہے یہاں تک کہ اس کی زبان اپناما فی الضمیر ادا کرنے لگے۔
سیدنا اسود سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اوعرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اپنے پروردگار کی حمدومدح اور آپ کی تعریف میں اشعار کہے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذراسناؤ تو تم نے اپنے رب کی تعریف میں کیا کہا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن زيد، عبدالرحمن بن أبى بكرة لم يسمع من الأسود
(حديث قدسي) حدثنا علي بن عبد الله ، حدثنا معاذ بن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن قتادة ، عن الاحنف بن قيس ، عن الاسود بن سريع ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قال:" اربعة يوم القيامة رجل اصم لا يسمع شيئا، ورجل احمق، ورجل هرم، ورجل مات في فترة، فاما الاصم، فيقول: رب لقد جاء الإسلام وما اسمع شيئا، واما الاحمق، فيقول: رب لقد جاء الإسلام والصبيان يحذفوني بالبعر، واما الهرم، فيقول: ربي لقد جاء الإسلام وما اعقل شيئا، واما الذي مات في الفترة، فيقول: رب ما اتاني لك رسول. فياخذ مواثيقهم ليطيعنه، فيرسل إليهم ان ادخلوا النار، قال: فوالذي نفس محمد بيده لو دخلوها، لكانت عليهم بردا وسلاما".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَرْبَعَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَصَمُّ لَا يَسْمَعُ شَيْئًا، وَرَجُلٌ أَحْمَقُ، وَرَجُلٌ هَرَمٌ، وَرَجُلٌ مَاتَ فِي فَتْرَةٍ، فَأَمَّا الْأَصَمُّ، فَيَقُولُ: رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَمَا أَسْمَعُ شَيْئًا، وَأَمَّا الْأَحْمَقُ، فَيَقُولُ: رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَالصِّبْيَانُ يَحْذِفُونِي بِالْبَعْرِ، وَأَمَّا الْهَرَمُ، فَيَقُولُ: رَبِّي لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَمَا أَعْقِلُ شَيْئًا، وَأَمَّا الَّذِي مَاتَ فِي الْفَتْرَةِ، فَيَقُولُ: رَبِّ مَا أَتَانِي لَكَ رَسُولٌ. فَيَأْخُذُ مَوَاثِيقَهُمْ لَيُطِيعُنَّهُ، فَيُرْسِلُ إِلَيْهِمْ أَنْ ادْخُلُوا النَّارَ، قَالَ: فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ دَخَلُوهَا، لَكَانَتْ عَلَيْهِمْ بَرْدًا وَسَلَامًا".
سیدنا اسود بن سریع سے مروی ہے کہ قیامت کے دن چار قسم کے لوگ ہوں گے (١) بہرا آدمی جو کچھ سن نہ سکے ٢۔ احمق آدمی۔ ٣۔ بوڑھا آدمی۔ ٤۔ فترت وحی (انقطاع رسل) کے زمانے میں مرنے والا آدمی۔ چنانچہ بہرا آدمی اعراض کر ے گا کہ پروردگار اسلام تو آیا تھا لیکن میں کچھ سن ہی نہ سکا احمق عرض کر ے گا کہ پروردگار اسلام تو آیا تھا لیکن بچے مجھ پر مینگینیاں برساتے تھے بوڑھاعرض کر ے گا کہ پروردگار اسلام تو آیا تھا لیکن اس وقت میری عقل نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور فترت وحی کے زمانے میں مرنے والاک ہے گا کہ پروردگار میرے پاس تیرا کوئی پیغمبر ہی نہیں آیا اللہ ان سے یہ وعدہ لے گا کہ وہ اس کی اطاعت کر یں گے اور پھر انہیں حکم دے گا کہ جہنم میں داخل ہو جائیں اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر وہ جہنم میں داخل ہو گئے تو وہ ان کے لئے ٹھنڈی اور باعث سلامتی بن جائے گی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، قتادة مدلس، وقد عنعن، ثم إن سماعه من الأحنف بن قيس مستبعد
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا السري بن يحيى ، حدثنا الحسن ، عن الاسود بن سريع وكان رجلا من بني سعد، قال: وكان اول من قص في هذا المسجد يعني المسجد الجامع، قال: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم اربع غزوات، قال: فتناول قوم الذرية بعدما قتلوا المقاتلة، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" الا ما بال اقوام قتلوا المقاتلة حتى تناولوا الذرية؟" قال: فقال رجل: يا رسول الله، اوليس ابناء المشركين؟، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن خياركم ابناء المشركين إنها ليست نسمة تولد إلا ولدت على الفطرة فما تزال عليها حتى يبين عنها لسانها فابواها يهودانها او ينصرانها" قال: واخفاها الحسن.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا السَّرِيُّ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ وَكَانَ رَجُلًا مِنْ بَنِي سَعْدٍ، قَالَ: وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ قَصَّ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ يَعْنِي الْمَسْجِدَ الْجَامِعَ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ غَزَوَاتٍ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ قَوْمٌ الذُّرِّيَّةَ بَعْدَمَا قَتَلُوا الْمُقَاتِلَةَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَلَا مَا بَالُ أَقْوَامٍ قَتَلُوا الْمُقَاتِلَةَ حَتَّى تَنَاوَلُوا الذُّرِّيَّةَ؟" قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَلَيْسَ أَبْنَاءُ الْمُشْرِكِينَ؟، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ خِيَارَكُمْ أَبْنَاءُ الْمُشْرِكِينَ إِنَّهَا لَيْسَتْ نَسَمَةٌ تُولَدُ إِلَّا وُلِدَتْ عَلَى الْفِطْرَةِ فَمَا تَزَالُ عَلَيْهَا حَتَّى يُبِينَ عَنْهَا لِسَانُهَا فَأَبَوَاهَا يُهَوِّدَانِهَا أَوْ يُنَصِّرَانِهَا" قَالَ: وَأَخْفَاهَا الْحَسَنُ.
سیدنا اسود بن سریع سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین کے موقع پر ایک دستہ روانہ فرمایا: انہوں نے مشرکین سے قتال کیا جس کا دائرہ وسیع ہوتے ہی ان کی اولاد کے قتل تک پہنچا جب وہ لوگ واپس آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہیں بچوں کو قتل کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا تھا وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! وہ مشرکین کے بچے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے جو بہترین لوگ ہیں وہ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے جو روح بھی دنیا میں جنم لیتی ہے وہ فطرت پر پیدا ہو تی ہے یہاں تک کہ اس کی زبان اپنا مافی الضمیر ادا کرنے لگے اور اس کے والدین ہی اسے یہو دی عیسائی بناتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، الحسن البصري رغم تصريحه بالسماع هنا من الأسود بن سريع، إلا أن الصحيح أنه لم يسمع منه