(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد: حدثني ابو موسى العنزي محمد ابن المثنى ، قال: حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن ابن عون ، عن كلثوم بن جبر ، قال: كنا بواسط القصب عند عبد الاعلى بن عبد الله بن عامر قال: فإذا عنده رجل، يقال له ابو الغادية استسقى ماء، فاتي بإناء مفضض، فابى ان يشرب، وذكر النبي صلى الله عليه وسلم فذكر هذا الحديث:" لا ترجعوا بعدي كفارا او ضلالا" شك ابن ابي عدي" يضرب بعضكم رقاب بعض" فإذا رجل يسب فلانا، فقلت: والله لئن امكنني الله منك في كتيبة، فلما كان يوم صفين إذا انا به وعليه درع، قال: ففطنت إلى الفرجة في جربان الدرع فطعنته، فقتلته، فإذا هو عمار بن ياسر، قال: قلت: واي يد كفتاه يكره ان يشرب في إناء مفضض وقد قتل عمار بن ياسر.(حديث مرفوع) قال عَبْد اللَّهِ بن أحمد: حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى الْعَنَزِيُّ مُحَمَّدُ ابْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ ، قَالَ: كُنَّا بِوَاسِطِ الْقَصَبِ عِنْدَ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: فَإِذَا عِنْدَهُ رَجُلٌ، يُقَالُ لَهُ أَبُو الْغَادِيَةِ اسْتَسْقَى مَاءً، فَأُتِيَ بِإِنَاءٍ مُفَضَّضٍ، فَأَبَى أَنْ يَشْرَبَ، وَذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ:" لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا أَوْ ضُلَّالًا" شَكَّ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ" يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ" فَإِذَا رَجُلٌ يَسُبُّ فُلَانًا، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ أَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْكَ فِي كَتِيبَةٍ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ صِفِّينَ إِذَا أَنَا بِهِ وَعَلَيْهِ دِرْعٌ، قَالَ: فَفَطِنْتُ إِلَى الْفُرْجَةِ فِي جُرُبَّانِ الدِّرْعِ فَطَعَنْتُهُ، فَقَتَلْتُهُ، فَإِذَا هُوَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: وَأَيُّ يَدٍ كَفَتَاهُ يَكْرَهُ أَنْ يَشْرَبَ فِي إِنَاءٍ مُفَضَّضٍ وَقَدْ قَتَلَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ.
کلثوم بن حبر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ شہر واسط میں عبدالاعلی بن عامر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران وہاں موجود ایک شخص جس کا نام ابوغادیہ تھا نے پانی منگوایا، چنانچہ چاندی کے ایک برتن میں پانی لایا گیا لیکن انہوں نے وہ پانی پینے سے انکار کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے یہ حدیث ذکر کی کہ میرے پیچھے کافر یا گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ اچانک ایک آدمی دوسرے کو برا بھلا کہنے لگا، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر اللہ نے لشکر میں مجھے تیرے اوپر قدرت عطاء فرمائی (تو تجھ سے حساب لوں گا) جنگ صفین کے موقع پر اتفاقا میرا اس سے آمنا سامنا ہو گیا، اس نے زرہ پہن رکھی تھی، لیکن میں نے زرہ کی خالی جگہوں سے اسے شناخت کر لیا، چنانچہ میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا، بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو سیدنا عمار بن یاسر تھے، تو میں نے افسوس سے کہا کہ یہ کون سے ہاتھ ہیں جو چاندی کے برتن میں پانی پینے پر ناگواری کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ انہی ہاتھوں نے سیدنا عمار کو شہید کر دیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، قال: حدثنا ربيعة بن كلثوم ، قال: حدثني ابي ، عن ابي غادية الجهني ، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم العقبة فقال:" يا ايها الناس، إن دماءكم واموالكم عليكم حرام إلى ان تلقوا ربكم كحرمة يومكم هذا، في بلدكم هذا، في شهركم هذا، الا هل بلغت؟"، قالوا: نعم، قال" اللهم هل بلغت؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ كُلْثُومٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِي غَادِيَةَ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْعَقَبَةِ فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ إِلَى أَنْ تَلْقَوْا رَبَّكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ" اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟".
سیدنا ابوغادیہ جہنی سے مروی ہے کہ یوم عقبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! قیامت تک تم لوگوں کی جان ومال کو ایک دوسرے پر حرام قرار دیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس دن کی حرمت اس مہینے میں اور اس شہر میں ہے، کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچادیا؟ لوگوں نے تائید کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ تو گواہ رہ، یاد رکھو! میرے پیچھے کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچا دیا۔
عاص بن عمرو طفاوی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابوغادیہ، حبیب بن حارث اور ام غادیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مہاجر بن کر روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر اسلام قبول کر لیا، اس موقع پر خاتون (ام غادیہ) نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! مجھے کوئی وصیت فرمایئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی باتوں سے بچو جو کانوں کو سننا ناگوار ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الجهالة حال العاص بن عمرو