سیدنا سلمہ بن صخر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس سے مباشرت بھی کر لی، پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ نے مجھے کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشاهده، وهذا إسناد ضعيف، إسحاق بن عبدالله متروك، وسليمان بن يسار لم يسمع من سلمة
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن عمرو بن عطاء ، عن سليمان بن يسار ، عن سلمة بن صخر الانصاري ، قال: كنت امرا قد اوتيت من جماع النساء ما لم يؤت غيري، فلما دخل رمضان، تظاهرت من امراتي حتى ينسلخ رمضان فرقا من ان اصيب في ليلتي شيئا، فاتتابع في ذلك إلى ان يدركني النهار وانا لا اقدر على ان انزع، فبينا هي تخدمني إذ تكشف لي منها شيء، فوثبت عليها، فلما اصبحت، غدوت على قومي، فاخبرتهم خبري، وقلت لهم انطلقوا معي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبره بامري، فقالوا: لا والله لا نفعل، نتخوف ان ينزل فينا قرآن او يقول فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقالة يبقى علينا عارها، ولكن اذهب انت، فاصنع ما بدا لك. قال فخرجت فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته خبري، فقال لي:" انت بذاك". فقلت: انا بذاك، فقال:" انت بذاك"، فقلت: انا بذاك، قال:" انت بذاك"، قلت: نعم، ها انا ذا، فامض في حكم الله عز وجل، فإني صابر له، قال:" اعتق رقبة"، قال: فضربت صفحة رقبتي بيدي وقلت لا والذي بعثك بالحق، ما اصبحت املك غيرها، قال:" فصم شهرين"، قال: قلت: يا رسول الله، وهل اصابني ما اصابني إلا في الصيام؟ قال:" فتصدق"، قال: فقلت والذي بعثك بالحق، لقد بتنا ليلتنا هذه وحشاء ما لنا عشاء، قال:" اذهب إلى صاحب صدقة بني زريق، فقل له، فليدفعها إليك، فاطعم عنك منها وسقا من تمر ستين مسكينا، ثم استعن بسائره عليك وعلى عيالك"، قال: فرجعت إلى قومي، فقلت: وجدت عندكم الضيق وسوء الراي، ووجدت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم السعة والبركة، قد امر لي بصدقتكم، فادفعوها لي. قال: فدفعوها إلي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ امْرَأً قَدْ أُوتِيتُ مِنْ جِمَاعِ النِّسَاءِ مَا لَمْ يُؤْتَ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ، تَظَاهَرْتُ مِنَ امْرَأَتِي حَتَّى يَنْسَلِخَ رَمَضَانُ فَرَقًا مِنْ أَنْ أُصِيبَ فِي لَيْلَتِي شَيْئًا، فَأَتَتَابَعُ فِي ذَلِكَ إِلَى أَنْ يُدْرِكَنِي النَّهَارُ وَأَنَا لَا أَقْدِرُ عَلَى أَنْ أَنْزِعَ، فَبَيْنَا هِيَ تَخْدُمُنِي إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ، فَوَثَبْتُ عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، غَدَوْتُ عَلَى قَوْمِي، فَأَخْبَرْتُهُمْ خَبَرِي، وَقُلْتُ لَهُمْ انْطَلِقُوا مَعِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُخْبِرُهُ بِأَمْرِي، فَقَالُوا: لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ، نَتَخَوَّفُ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا قُرْآنٌ أَوْ يَقُولَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَةً يَبْقَى عَلَيْنَا عَارُهَا، وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ، فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ. قَالَ فَخَرَجْتُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِي، فَقَالَ لِي:" أَنْتَ بِذَاكَ". فَقُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، فَقَالَ:" أَنْتَ بِذَاكَ"، فَقُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، قَالَ:" أَنْتَ بِذَاكَ"، قُلْتُ: نَعَمْ، هَا أَنَا ذَا، فَأَمْضِ فِيَّ حُكْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنِّي صَابِرٌ لَهُ، قَالَ:" أَعْتِقْ رَقَبَةً"، قَالَ: فَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِي بِيَدِي وَقُلْتُ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا أَصْبَحْتُ أَمْلِكُ غَيْرَهَا، قَالَ:" فَصُمْ شَهْرَيْنِ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ أَصَابَنِي مَا أَصَابَنِي إِلَّا فِي الصِّيَامِ؟ قَالَ:" فَتَصَدَّقْ"، قَالَ: فَقُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ وَحْشَاءَ مَا لَنَا عَشَاءٌ، قَالَ:" اذْهَبْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ، فَقُلْ لَهُ، فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، فَأَطْعِمْ عَنْكَ مِنْهَا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ سِتِّينَ مِسْكِينًا، ثُمَّ اسْتَعِنْ بِسَائِرِهِ عَلَيْكِ وَعَلَى عِيَالِكَ"، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمْ الضِّيقَ وَسُوءَ الرَّأْيِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَالْبَرَكَةَ، قَدْ أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِكُمْ، فَادْفَعُوهَا لِي. قَالَ: فَدَفَعُوهَا إِلَيَّ.
سیدنا سلمہ بن صخر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں عورتوں کو بہت چاہتا تھا اور میں کسی مرد کو نہیں جانتا جو عورتوں سے اتنی صحبت کرتا ہو، جیسے میں کرتا تھا۔ خیر رمضان آیا تو میں نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا، اخیر رمضان تک تاکہ رات کے وقت اس کے قریب نہ چلا جاؤں، دن ہو نے تک میں اسی طرح کرتا تھا اور اپنے اندر اتنی طاقت نہ پاتا تھا کہ اس سے مکمل جدا ہو جاؤں، ایک رات میری بیوی میری خدمت کر رہی تھی کہ اس کی ران سے کپڑا اوپر ہو گیا، میں اس سے صحبت کر بیٹھا۔ جب صبح ہوئی تو لوگوں کے پاس گیا اور ان سے بیان کیا کہ میرے لئے یہ مسئلہ تم آنسیدنا سے دریافت کر و۔ انہوں نے کہا ہم تو نہیں پوچھیں گے ایسا نہ ہو کہ ہمارے متعلق کتاب نازل جو تاقیامت باقی رہے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ (غصہ) فرما دیں اور اس کی شرمندگی تاعمر ہمیں باقی رے لیکن اب تم خود ہی جاؤ اور جو مناسب سمجھو کر و، چنانچہ میں وہاں سے نکلا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بیان کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: یہ کام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! اور میں حاضر ہوں یا رسول اللہ!! اور میں اللہ عزوجل کے حکم پر صابر رہوں گا جو میرے بارے میں اترے، آپ نے فرمایا: تو ایک غلام آزاد کر، میں نے کہا قسم اس کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا، میں تو بس اپنے ہی نفس کا مالک ہوں، آپ نے فرمایا: اچھا! دو ماہ لگاتار روزے رکھ، میں نے عرض کیا:، یا رسول اللہ!! یہ جو بلا مجھ پر آئی یہ روزہ رکھنے ہی سے تو آئی، آپ نے فرمایا: تو صدقہ دے اور ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا، میں نے کہا قسم اس کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہم تو اس رات بھی فاقے سے تھے، ہمارے پاس رات کا کھانا نہ تھا، آپ نے فرمایا: بنی زریق کے صدقات کے ذمے دار کے پاس جا اور اس سے کہ وہ تجھے جو مال دے اس میں سے ساٹھ مساکین کو کھلا اور جو بچے اسے اپنے استعمال میں لا، چنانچہ میں اپنی قوم میں جب واپس آیا تو ان سے کہا کہ مجھے تمہارے پاس سے تنگی اور بری رائے ملی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں کشادگی اور برکت، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے تمہارے صدقات کا حکم دیا ہے لہذا وہ میرے حوالے کر و، چنانچہ انہوں نے وہ مجھے دے دیئے۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشاهده، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعن، وسليمان بن يسار لم يسمع من سلمة