سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب مسجد حرام کو نکال کر دیگر مساجد کی نسبت ایک ہزار درجے زیادہ افضل ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، محمد بن طلحة لم يدرك جبير بن مطعم
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لو كان المطعم بن عدي حيا فكلمني في هؤلاء النتنى اطلقتهم" يعني اسارى بدر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا فَكَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ النَّتْنَى أَطْلَقْتُهُمْ" يَعْنِي أُسَارَى بَدْرٍ.
سیدنا جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور مجھ سے ان مرداروں (بدر کے قیدیوں) کے متعلق بات کرتے تو میں ان سب کو آزاد کر دیتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن لي اسماء، انا محمد، وانا احمد، وانا الحاشر الذي يحشر الناس على قدمي، وانا الماحي الذي يمحى بي الكفر، وانا العاقب" والعاقب الذي ليس بعده نبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ لِي أَسْمَاءً، أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يُمْحَى بِيَ الْكُفْرُ، وَأَنَا الْعَاقِبُ" وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا جبیر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے کئی نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں حاشر ہوں جس کے قدموں میں لوگوں کو جمع کیا جائے گا، میں ماحی ہوں جس کے ذریعے کفر کو مٹا دیا جائے گا اور میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو گا۔
سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے بنی عبدمناف! جو شخص بیت اللہ کا طواف کر ے یا نماز پڑھے، اسے کسی صورت منع نہ کر و خواہ دن یا رات کے کسی بھی حصے میں ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، قال: اضللت بعيرا لي بعرفة، فذهبت اطلبه، فإذا النبي صلى الله عليه وسلم" واقف، قلت: إن هذا من الحمس، ما شانه هاهنا؟"، وقال سفيان مرة: عن عمرو ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، قال" ذهبت اطلب بعيرا لي بعرفة، فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم واقفا، قلت: هذا من الحمس، ما شانه هاهنا؟!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَضْلَلْتُ بَعِيرًا لِي بِعَرَفَةَ، فَذَهَبْتُ أَطْلُبُهُ، فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" وَاقِفٌ، قُلْتُ: إِنَّ هَذَا مِنَ الْحُمْسِ، مَا شَأْنُهُ هَاهُنَا؟"، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ" ذَهَبْتُ أَطْلُبُ بَعِيرًا لِي بِعَرَفَةَ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا، قُلْتُ: هَذَا مِنَ الْحُمْسِ، مَا شَأْنُهُ هَاهُنَا؟!.
سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میدان عرفات میں میرا اونٹ گم ہو گیا، میں اسے تلاش کرنے کے لئے نکلا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں وقوف کئے ہوئے ہیں، میں نے اپنے دل میں سوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو حمس (قریش) میں سے ہیں لیکن ان کی یہاں کیا کیفیت ہے؟
سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میدان عرفات میں میرا اونٹ گم ہو گیا، میں اسے تلاش کرنے کے لئے نکلا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں وقوف کئے ہوئے ہیں، میں نے اپنے دل میں سوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو حمس (قریش) میں سے ہیں لیکن ان کی یہاں کیا کیفیت ہے؟
فائدہ: دراصل قریش کے لوگ میدان عرفات میں نہیں جاتے تھے اور انہیں حمس کہا جاتا تھا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسم کو توڑ ڈالا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد ، قال: حدثنا محمد يعني ابن إسحاق ، عن الزهري ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالخيف من منى، فقال:" نضر الله امرءا سمع مقالتي، فوعاها، ثم اداها إلى من لم يسمعها، فرب حامل فقه لا فقه له، ورب حامل فقه إلى من هو افقه منه، ثلاث لا يغل عليهم قلب المؤمن إخلاص العمل، والنصيحة لولي الامر، ولزوم الجماعة، فإن دعوتهم تكون من ورائه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْخَيْفِ مِنْ مِنًى، فَقَالَ:" نَضَّرَ اللَّهُ امَرءا سَمِعَ مَقَالَتِي، فَوَعَاهَا، ثُمَّ أَدَّاهَا إِلَى مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَا فِقْهَ لَهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، ثَلَاثٌ لَا يَغِلُّ عَلَيْهِمْ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ، وَالنَّصِيحَةُ لِوَلِيِّ الْأَمْرِ، وَلُزُومُ الْجَمَاعَةِ، فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تَكُونُ مِنْ وَرَائِهِ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان منیٰ میں مسجد خیف میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات سنے، اسے اچھی طرح محفوظ کر ے، پھر ان لوگوں تک پہنچادے جو اسے براہ راست نہیں سن سکے، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فقہ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں لیکن فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے حاملین فقیہ اس شخص تک بات پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھدار ہوتا ہے۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا۔ (١) عمل میں اخلاص، (٢) حکمرانوں کے لئے خیر خواہی (٣) جماعت کے ساتھ چمٹے رہنا کیونکہ جماعت کی دعاء اسے پیچھے سے گھیر لیتی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعن
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن مسعر ، قال: حدثني عمرو بن مرة ، عن رجل ، عن نافع بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في التطوع:" الله اكبر كبيرا ثلاث مرار، والحمد لله كثيرا ثلاث مرار، وسبحان الله بكرة واصيلا ثلاث مرار، اللهم إني اعوذ بك من الشيطان الرجيم، من همزه ونفثه ونفخه"، قلت: يا رسول الله، ما همزه ونفثه ونفخه؟، قال:" اما همزه فالموتة التي تاخذ ابن آدم، واما نفخه الكبر، ونفثه الشعر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي التَّطَوُّعِ:" اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا ثَلَاثَ مِرَارٍ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا ثَلَاثَ مِرَارٍ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ثَلَاثَ مِرَارٍ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْثِهِ وَنَفْخِهِ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَمْزُهُ وَنَفْثُهُ وَنَفْخُهُ؟، قَالَ:" أَمَّا هَمْزُهُ فَالْمُوتَةُ الَّتِي تَأْخُذُ ابْنَ آدَمَ، وَأَمَّا نَفْخُهُ الْكِبْرُ، وَنَفْثُهُ الشِّعْرُ".
سیدنا جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میں نے نوافل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ اللہ اکبر کبیرا، تین مرتبہ والحمدللہ کثیرا اور تین مرتبہ سبحان اللہ بکر ۃ واصیلا اور یہ دعاء پڑھتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! میں شیطان مردوں کے ہمز، نفث اور نفخ سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ!! ہمز، نفث اور نفخ سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمز سے مراد وہ موت ہے جو ابن آدم کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، نفخ سے مراد تکبر ہے اور نفث سے مراد شعر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الراوي عن نافع بن جبير ، وقد اختلف فى اسمه على عمرو بن مرة
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، قال: حدثنا مسعر ، عن عمرو بن مرة ، عن رجل من عنزة، عن نافع بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول:" الله اكبر كبيرا، والحمد لله كثيرا، وسبحان الله بكرة واصيلا، اللهم إني اعوذ بك من الشيطان الرجيم من همزه، ونفخه ونفثه"، قال: قلت: ما همزه؟، قال: فذكر كهيئة الموتة، يعني يصرع، قلت: فما نفخه؟، قال:" الكبر"، قلت: فما نفثه؟، قال:" الشعر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَنَزَةَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ، وَنَفْخِهِ ونفثه"، قَالَ: قُلْتُ: مَا هَمْزُهُ؟، قَالَ: فَذَكَرَ كَهَيْئَةِ الْمُوتَةِ، يَعْنِي يَصْرَعُ، قُلْتُ: فَمَا نَفْخُهُ؟، قَالَ:" الْكِبْرُ"، قُلْتُ: فَمَا نَفْثُهُ؟، قَال:" الشِّعْرُ".
سیدنا جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میں نے نوافل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ اللہ اکبر کبیرا، تین مرتبہ والحمدللہ کثیرا اور تین مرتبہ سبحان اللہ بکر ۃ واصیلا اور یہ دعاء پڑھتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! میں شیطان مردوں کے ہمز، نفث اور نفخ سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ!! ہمز، نفث اور نفخ سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمز سے مراد وہ موت ہے جو ابن آدم کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، نفخ سے مراد تکبر ہے اور نفث سے مراد شعر ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف الراوي عن نافع بن جبير
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن جبير بن مطعم ، قال: لما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم سهم القربى من خيبر بين بني هاشم، وبني المطلب جئت انا، وعثمان بن عفان، فقلت: يا رسول الله، هؤلاء بنو هاشم لا ينكر فضلهم لمكانك الذي وصفك الله عز وجل به منهم، ارايت إخواننا من بني المطلب اعطيتهم وتركتنا، وإنما نحن وهم منك بمنزلة واحدة، قال:" إنهم لم يفارقوني في جاهلية ولا إسلام، وإنما هم بنو هاشم، وبنو المطلب شيئا واحدا"، قال: ثم شبك بين اصابعه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ الْقُرْبَى مِنْ خَيْبَرَ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ جِئْتُ أَنَا، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو هَاشِمٍ لَا يُنْكَرُ فَضْلُهُمْ لِمَكَانِكَ الَّذِي وَصَفَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ مِنْهُمْ، أَرَأَيْتَ إِخْوَانَنَا مِنْ بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ وَتَرَكْتَنَا، وَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ، قَالَ:" إِنَّهُمْ لَمْ يُفَارِقُونِي فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَإِنَّمَا هُمْ بَنُو هَاشِمٍ، وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيئًا وَاحِدًا"، قَالَ: ثُمَّ شَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کے مال غنیمت میں اپنے قریبی رشتہ داروں بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے درمیان حصہ تقسیم فرمایا: تو میں اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ!! یہ جو بنوہاشم ہیں، ہم ان کی فضیلت کا انکار نہیں کرتے، کیونکہ آپ کا ایک مقام و مرتبہ ہے جس کے ساتھ اللہ نے آپ کو ان میں سے متصف فرمایا ہے لیکن یہ جو بنو مطلب ہیں، آپ نے انہیں تو عطاء فرما دیا اور ہمیں چھوڑ دیا؟ لیکن وہ اور ہم آپ کے ساتھ ایک جیسی نسبت اور مقام رکھتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دراصل یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں مجھ سے جدا ہوئے اور نہ زمانہ اسلام میں اور بنو ہاشم اور بنومطلب ایک ہی چیز ہیں یہ کہہ کر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھائیں۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک قریشی کو غیر قریشی کے مقابلے میں دو آدمیوں کے برابر طاقت حاصل ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عمرو ، قال: اخبرنا ابن جريج ، قال: اخبرنا ابو الزبير ، انه سمع عبد الله بن بابيه ، عن جبير بن مطعم ، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" خير عطاء هذا يا بني عبد مناف، ويا بني عبد المطلب إن كان لكم من الامر شيء فلاعرفن ما منعتم احدا يطوف بهذا البيت اي ساعة من ليل او نهار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَابَيْهِ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ عَطَاءٍ هَذَا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، وَيَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنْ كَانَ لَكُمْ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ فَلَأَعْرِفَنَّ مَا مَنَعْتُمْ أَحَدًا يَطُوفُ بِهَذَا الْبَيْتِ أَيَّ سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اے بنی عبدمناف! اور اے بنوعبدالمطلب! جو شخص بیت اللہ کا طواف کر ے یا نماز پڑھے، اسے کسی صورت منع نہ کر و خواہ دن یا رات کے کسی بھی حصے میں ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، محمد بن عمر غير منسوب، ولعل الراجع هو: محمد بن بكر، وقد تحرف
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا ابو عامر ، قال: حدثنا زهير بن محمد ، عن عبد الله ابن محمد بن عقيل ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اي البلدان شر؟، قال: فقال:" لا ادري" فلما اتاه جبريل عليه السلام، قال:" يا جبريل، اي البلدان شر؟، قال: لا ادري حتى اسال ربي عز وجل، فانطلق جبريل عليه السلام، ثم مكث ما شاء الله ان يمكث، ثم جاء، فقال: يا محمد إنك سالتني اي البلدان شر، فقلت: لا ادري وإني سالت ربي عز وجل اي البلدان شر؟، فقال:" اسواقها".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْبُلْدَانِ شَرٌّ؟، قَالَ: فَقَالَ:" لَا أَدْرِي" فَلَمَّا أَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ:" يَا جِبْرِيلُ، أَيُّ الْبُلْدَانِ شَرٌّ؟، قَالَ: لَا أَدْرِي حَتَّى أَسْأَلَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَانْطَلَقَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَمْكُثَ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ سَأَلْتَنِي أَيُّ الْبُلْدَانِ شَرٌّ، فَقُلْتُ: لَا أَدْرِي وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَيُّ الْبُلْدَانِ شَرٌّ؟، فَقَالَ:" أَسْوَاقُهَا".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ!! شہر کا کون سا حصہ سب سے بدترین ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں جب جبرائیل آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہی سوال پوچھا:، انہوں نے بھی جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں، البتہ میں اپنے رب سے پوچھتا ہوں، یہ کہہ کر وہ چلے گئے، کچھ دیر بعد وہ واپس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! آپ نے مجھے سے یہ سوال پوچھا: تھا اور میں نے کہا مجھے معلوم نہیں اب میں اپنے پروردگار سے پوچھ آیا ہوں، اس نے جو جواب دیا ہے کہ شہر کا سب سے بدترین حصہ اس کے بازار ہوتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالله بن محمد بن عقيل، وهذا الحديث من مناكير زهير بن محمد
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا اسود بن عامر ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، عن عمرو بن دينار ، عن نافع بن جبير ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ينزل الله عز وجل في كل ليلة إلى السماء الدنيا، فيقول: هل من سائل فاعطيه؟ هل من مستغفر فاغفر له؟ حتى يطلع الفجر".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَنْزِلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأُعْطِيَهُ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهُ؟ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اسے عطاء کر وں؟ ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ میں اسے معاف کر دوں؟ یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن عمرو بن دينار ، عن نافع بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، قال:" من يكلؤنا الليلة لا نرقد عن صلاة الفجر؟"، فقال بلال: انا، فاستقبل مطلع الشمس، فضرب على آذانهم، فما ايقظهم إلا حر الشمس، فقاموا فادوها، ثم توضئوا فاذن بلال، فصلوا الركعتين، ثم صلوا الفجر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، قَالَ:" مَنْ يَكْلَؤُنَا اللَّيْلَةَ لَا نَرْقُدُ عَنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ؟"، فَقَالَ بِلَالٌ: أَنَا، فَاسْتَقْبَلَ مَطْلَعَ الشَّمْسِ، فَضُرِبَ عَلَى آذَانِهِمْ، فَمَا أَيْقَظَهُمْ إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، فَقَامُوا فَأَدَّوْهَا، ثُمَّ تَوَضَّئوا فَأَذَّنَ بِلَالٌ، فَصَلَّوْا الرَّكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّوْا الْفَجْرَ.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے، ایک پڑاؤ میں فرمایا کہ آج رات پہرہ کون دے گا تاکہ نماز فجر کے وقت ہم لوگ سوتے ہی نہ رہ جائیں؟ سیدنا بلال نے اپنے آپ کو پیش کر دیا اور مشرق کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئے، لوگ بیخبر ہو کر سو گئے اور سورج کی تپش ہی نے انہیں بیدار کیا، وہ جلدی سے اٹھے اس جگہ سے کوچ کیا، وضو کیا، سیدنا بلال نے اذان دی، لوگوں نے دو سنتیں پڑھیں پھر نماز فجر پڑھی۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اسے عطاء کر وں؟ ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ میں اسے معاف کر دوں؟
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے کئی نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں حاشر ہوں، میں ماحی ہوں، میں خاتم ہوں اور میں عاقب ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجين بن المثنى ، قال: حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن سليمان بن صرد ، عن جبير بن مطعم ، قال: تذاكرنا غسل الجنابة عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما انا فآخذ ملء كفي ثلاثا، فاصب على راسي، ثم افيضه بعد على سائر جسدي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: تَذَاكَرْنَا غُسْلَ الْجَنَابَةِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا أَنَا فَآخُذُ مِلْءَ كَفَّي ثَلَاثًا، فَأَصُبُّ عَلَى رَأْسِي، ثُمَّ أُفِيضُه بَعْدُ عَلَى سَائِرِ جَسَدِي".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں غسل ت کا تذکر ہ کر رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ میں تو دونوں ہتھیلیوں میں بھر کر پانی لیتا ہوں اور اپنے سر پر بہا لیتا ہوں، اس کے بعد بقیہ جسم پر پانی ڈالتا ہوں۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں چاند شق ہو کر دو ٹکڑوں میں بٹ گیا، ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر اور دوسرا ٹکڑا اس پہاڑ پر، مشرکین مکہ یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ محمد نے ہم پر جادو کر دیا ہے، اس پر کچھ لوگوں نے کہا اگر انہوں نے ہم پر جادو کر دیا ہے تو ان میں اتنی طاقت تو نہیں ہے کہ وہ سب ہی لوگوں پر جادو کر دیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حصين بن عبدالرحمن لم يسمع هذا الحديث من محمد ابن جبير، وله أصل فى الصحيحين
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، قال: حدثنا سعيد بن عبد العزيز ، قال: حدثني سليمان بن موسى ، عن جبير بن مطعم ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" كل عرفات موقف، وارفعوا عن بطن عرنة، وكل مزدلفة موقف، وارفعوا عن محسر، وكل فجاج منى منحر، وكل ايام التشريق ذبح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" كُلُّ عَرَفَاتٍ مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ بَطْنِ عُرَنَةَ، وَكُلُّ مُزْدَلِفَةَ مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ مُحَسِّرٍ، وَكُلُّ فِجَاجِ مِنًى مَنْحَرٌ، وَكُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عرفات کا سارا میدان وقوف کی جگہ ہے، البتہ بطن عرنہ سے ہٹ کر وقوف کر و، اسی طرح پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے البتہ وادی محسر سے ہٹ کر وقوف کر و اور منیٰ کا ہر سوراخ قربان گاہ ہے اور تمام ایام تشریق ایام ذبح ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، سليمان بن موسى لم يدرك جبير بن مطعم، وقد اضطرب فيه ألوانا
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اے بنی عبدمناف! اور اے بنوعبدالمطلب! جو شخص بیت اللہ کا طواف کر ے یا نماز پڑھے، اسے کسی صورت منع نہ کر و خواہ دن یا رات کے کسی بھی حصے میں ہو۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان منیٰ میں مسجد خیف میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات سنے، اسے اچھی طرح محفوظ کر ے، پھر ان لوگوں تک پہنچادے جو اسے براہ راست نہیں سن سکے، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فقہ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں لیکن فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے حاملین فقیہ اس شخص تک بات پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھدار ہوتا ہے۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا۔ (١) عمل میں اخلاص، (٢) حکمرانوں کے لئے خیر خواہی (٣) جماعت کے ساتھ چمٹے رہنا کیونکہ جماعت کی دعا اسے پیچھے سے گھیر لیتی ہے۔ ۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وله إسنادان ضعيفان، وفي الإسناد الأول: لم يصرح ابن إسحاق بسماعه من الزهري، وفي الإسناد الثاني: وإن كان صرح بالسماع من شيخه عمرو بن أبى عمرو إلا أن فى طريقه عبدالرحمن بن الحويرث، وهو ضعيف
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي ، عن ابيه ، قال: اخبرني محمد بن جبير ، ان اباه جبير بن مطعم اخبره، ان امراة اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكلمته في شيء، فامرها بامر، فقالت: ارايت يا رسول الله إن لم اجدك؟، قال:" إن لم تجديني فاتي ابا بكر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، أَنَّ أَبَاهُ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْءٍ، فَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ، فَقَالَتْ: أَرَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ أَجِدْكَ؟، قَالَ:" إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کسی معاملے میں کوئی بات کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دے دیا، وہ کہنے لگی یا رسول اللہ!! یہ بتایئے کہ اگر آپ نہ ملیں تو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر کے پاس چلی جانا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي ، عن صالح ، قال ابن شهاب ، اخبرني عمر بن محمد بن جبير بن مطعم ، ان محمد بن جبير بن مطعم ، قال: اخبرني جبير بن مطعم ، انه بينا هو يسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه الناس مقبلا من حنين، علقت رسول الله صلى الله عليه وسلم الاعراب يسالونه حتى اضطروه إلى سمرة، فخطفت رداءه، فوقف رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" اعطوني ردائي، فلو كان عدد هذه العضاه نعما لقسمته، ثم لا تجدوني بخيلا ولا كذابا ولا جبانا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ ، أَنَّهُ بَيْنَا هُوَ يَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ النَّاسُ مُقْبِلًا مِنْ حُنَيْنٍ، عَلِقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَعْرَابُ يَسْأَلُونَهُ حَتَّى اضْطَرُّوهُ إِلَى سَمُرَةٍ، فَخَطِفَتْ رِدَاءَهُ، فَوَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" أَعْطُونِي رِدَائِي، فَلَوْ كَانَ عَدَدُ هَذِهِ الْعِضَاهِ نَعَمًا لَقَسَمْتُهُ، ثُمَّ لَا تَجِدُونِي بَخِيلًا وَلَا كَذَّابًا وَلَا جَبَانًا".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین سے واپسی پر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، دوسرے لوگ بھی ہمراہ تھے کہ کچھ دیہاتیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں روک کر مال غنیمت مانگنا شروع کر دیا، حتی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ببول کے ایک درخت کے نیچے پناہ لینے پر مجبور کر دیا، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر بھی کسی نے کھینچ لی، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور فرمایا کہ مجھے میری چادر واپس دے دو، اگر ان کانٹوں کی تعداد کے برابر بھی میرے پاس نعمتیں ہوں تو میں تمہارے درمیان ہی انہیں تقسیم کر دوں اور تم مجھے پھر بھی بخیل، جھوٹا یا بزدل نہ پاؤں گے۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے زمانے سے پہلے دیکھا ہے، آپ عرفات میں اپنے اونٹ پر لوگوں کے ساتھ وقوف کئے ہوئے تھے اور انہی کے ساتھ واپس جارہے تھے، یہ بھی اللہ کی توفیق سے تھا۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا: تمہارے پاس بادلوں کے ٹکڑوں کی طرح اہل زمین میں سب سے بہتر لوگ یعنی اہل یمن آرہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ!! کیا وہ ہم سے بھی بہتر ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں آہستہ سے فرمایا: سوائے تمہارے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وقد اختلف عليه فيه
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا شعبة ، قال النعمان بن سالم : اخبرني عن رجل سماه، عن جبير بن مطعم، قال: اراه قد سمعه من جبير بن مطعم ، قال: قلت: يا رسول الله، إن الناس يزعمون انه ليس لنا اجور بمكة، قال: فاحسبه، قال:" كذبوا، لتاتينكم اجوركم ولو كنتم في جحر ثعلب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ النُّعْمَانُ بْنُ سَالِمٍ : أَخْبَرَنِي عَنْ رَجُلٍ سَمَّاهُ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: أُرَاهُ قَدْ سَمِعَهُ مِنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ لَيْسَ لَنَا أُجُورٌ بِمَكَّةَ، قَالَ: فَأَحْسَبُهُ، قَالَ:" كَذَبُوا، لَتَأْتِيَنَّكُمْ أُجُورُكُمْ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي جُحْرِ ثَعْلَبٍ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ!! کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مکہ مکر مہ میں ہمیں کوئی اجر نہیں ملا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ غلط کہتے ہیں، تمہیں تمہارا اجر وثواب ضرور ملے گا خواہ تم لومڑی کے بل میں ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام الراوي عن جبير بن مطعم
سیدنا جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میں نے نوافل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ اللہ اکبر کبیرا، تین مرتبہ والحمدللہ کثیرا اور تین مرتبہ سبحان اللہ بکر ۃ واصیلا اور یہ دعاء پڑھتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! میں شیطان مردوں کے ہمز، نفث اور نفخ سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ!! ہمز، نفث اور نفخ سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمز سے مراد وہ موت ہے جو ابن آدم کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، نفخ سے مراد تکبر ہے اور نفث سے مراد شعر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عباد بن عاصم هو عاصم العنزي على الراجح، وعاصم العنزي مجهول
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فتنہ انگیزی کے کسی معاہدے کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں، البتہ نیکی کے کاموں کے لئے معاہدے کی تو اسلام نے زیادہ ہی تاکید کی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، ومحمد بن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، قال: سمعت بعض إخوتي، عن ابي ، عن جبير بن مطعم ، انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم في فدى بدر، قال ابن جعفر: في فدى المشركين وما اسلم يومئذ، فدخلت المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي المغرب، فقرا بالطور"، فكانما صدع عن قلبي حين سمعت القرآن، قال ابن جعفر: فكانما صدع قلبي حيث سمعت القرآن.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ بَعْضَ إِخْوَتِي، عَنْ أَبِي ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فِدَى بَدْرٍ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: فِي فِدَى الْمُشْرِكِينَ وَمَا أَسْلَمَ يَوْمَئِذٍ، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي الْمَغْرِبَ، فَقَرَأَ بِالطُّورِ"، فَكَأَنَّمَا صُدِعَ عَنْ قَلْبِي حِينَ سَمِعْتُ الْقُرْآنَ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: فَكَأَنَّمَا صُدِعَ قَلْبِي حَيْثُ سَمِعْتُ الْقُرْآنَ.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ بدر کے قیدیوں کے فدیہ کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت تک انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت طور کی تلاوت شروع فرما دی، جب قرآن کی آواز میرے کانوں تک پہنچی تو میرا دل لرزنے لگا۔
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 4854، م: 463 دون قوله: فكأنما صدع عن قلبي حين سمعت القرآن، وهذا إسناد ضعيف لإبهام أخي سعد بن إبراهيم الذى سمع منه هذا الحديث
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قطع تعلقی کرنے والا کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5984، م: 2556، سفيان بن حسين ضعيف فى روايته عن الزهري، لكنه توبع
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن النعمان بن سالم ، عن رجل ، عن جبير بن مطعم ، قال: قلت: يا رسول الله، إنهم يزعمون انه ليس لنا اجر بمكة؟، قال:" لتاتينكم اجوركم ولو كنتم في جحر ثعلب"، قال: فاصغى إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم براسه، فقال:" إن في اصحابي منافقين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ لَيْسَ لَنَا أَجْرٌ بِمَكَّةَ؟، قَالَ:" لَتَأْتِيَنَّكُمْ أُجُورُكُمْ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي جُحْرِ ثَعْلَبٍ"، قَالَ: فَأَصْغَى إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسِهِ، فَقَالَ:" إِنَّ فِي أَصْحَابِي مُنَافِقِينَ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ!! کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مکہ مکر مہ میں ہمیں کوئی اجر نہیں ملا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ غلط کہتے ہیں، تمہیں تمہارا اجروثواب ضرور ملے گا خواہ تم لومڑی کے بل میں ہو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف سر جھکا کر فرمایا کہ میرے ساتھیوں میں کچھ منافقین بھی شامل ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الراوي عن جبير بن مطعم
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ بدر کے قیدیوں کے فدیہ کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت طور کی تلاوت شروع فرما دی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 4854، م: 463، محمد بن عمرو تكلم فى حفظه، لكنه توبع
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک قریشی کو غیر قریشی کے مقابلے میں دو آدمیوں کے برابر طاقت حاصل ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا إبراهيم بن سعد ، عن ابيه ، عن ابن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، ان امراة اتت النبي صلى الله عليه وسلم تساله شيئا، فقال لها:" ارجعي إلي"، فقالت: فإن رجعت فلم اجدك يا رسول الله؟ تعرض بالموت، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فإن رجعت فلم تجديني فالقي ابا بكر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ شَيْئًا، فَقَالَ لَهَا:" ارْجِعِي إِلَيَّ"، فَقَالَتْ: فَإِنْ رَجَعْتُ فَلَمْ أَجِدْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ تُعَرِّضُ بِالْمَوْتِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإِنْ رَجَعْتِ فَلَمْ تَجِدِينِي فَالْقَيْ أَبَا بَكْرٍ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کسی معاملے میں کوئی بات کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دے دیا، وہ کہنے لگی یا رسول اللہ!! یہ بتایئے کہ اگر آپ نہ ملیں تو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر کے پاس چلی جانا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر ، قال: حدثنا يونس ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، قال: حدثنا جبير بن مطعم ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقسم لعبد شمس، ولا لبني نوفل من الخمس شيئا كما كان يقسم لبني هاشم، وبني المطلب، وان ابا بكر كان يقسم الخمس نحو قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم غير انه لم يكن يعطي قربى رسول الله صلى الله عليه وسلم كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيهم، وكان عمر يعطيهم، وعثمان من بعده منه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْسِمْ لِعَبْدِ شَمْسٍ، وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنَ الْخُمْسِ شَيْئًا كَمَا كَانَ يَقْسِمُ لِبَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يَقْسِمُ الْخُمْسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيهِمْ، وَكَانَ عُمَرُ يُعْطِيهِمْ، وَعُثْمَانُ مِنْ بَعْدِهِ مِنْهُ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح بنو ہاشم اور بنو مطلب کے لئے حصے تقسیم فرماتے تھے، بنو عبدشمس اور بنو نوفل کے لئے اس طرح خمس میں کوئی حصہ نہیں لگاتے تھے، سیدنا صدیق اکبر بھی خمس کی تقسیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق کرتے تھے، البتہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ان کے قریبی رشتہ داروں کو نہیں دیتے تھے، پھر سیدنا عمر اور سیدنا عثمان ان کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں کو بھی دینے لگے۔
سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے بنی عبدمناف! جو شخص بیت اللہ کا طواف کر ے یا نماز پڑھے، اسے کسی صورت منع نہ کر و خواہ دن یا رات کے کسی بھی حصے میں ہو۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے کئی نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں حاشر ہوں، میں ماحی ہوں، میں خاتم ہوں اور میں عاقب ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن لي اسماء، انا احمد، وانا محمد، وانا الماحي الذي يمحو الله بي الكفر، وانا الحاشر الذي يحشر الناس على قدمي، وانا العاقب"، قال معمر: قلت للزهري: ما العاقب؟، قال: الذي ليس بعده نبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ لِي أَسْمَاءً، أَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الْكُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ"، قَالَ مَعْمَرٌ: قُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ: مَا الْعَاقِبُ؟، قَالَ: الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا جبیر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے کئی نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں حاشر ہوں جس کے قدموں میں لوگوں کو جمع کیا جائے گا، میں ماحی ہوں جس کے ذریعے کفر کو مٹا دیا جائے گا اور میں عاقب ہوں میں نے امام زہری سے عاقب کا معنی پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: جس کے بعد کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو گا۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قطع تعلقی کرنے والا کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ بدر کے قیدیوں کے فدیہ کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت طور کی تلاوت شروع فرما دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، وابن بكر ، قالا: حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني ابو الزبير ، انه سمع عبد الله بن باباه يخبر، عن جبير بن مطعم ، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" خير عطاء هذا، يا بني عبد المطلب، يا بني عبد مناف، إن كان إليكم من الامر شيء فلاعرفن ما منعتم احدا يصلي عند هذا البيت اي ساعة شاء من ليل او نهار"، وقال ابن بكر: ان يطوف بهذا البيت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَابْنُ بَكْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَابَاهُ يُخْبِرُ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خير عَطَاءِ هَذا، يا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، إِنْ كَانَ إِلَيْكُمْ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ فَلَأَعْرِفَنَّ مَا مَنَعْتُمْ أَحَدًا يُصَلِّي عِنْدَ هَذَا الْبَيْتِ أَيَّ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ"، وَقَالَ ابْنُ بَكْرٍ: أَنْ يَطُوفَ بِهَذَا الْبَيْتِ.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اے بنی عبدمناف! اور اے بنو عبدالمطلب! جو شخص بیت اللہ کا طواف کر ے یا نماز پڑھے اسے کسی صورت منع نہ کر و خواہ دن یا رات کے کسی بھی حصے میں ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عمر بن محمد بن عمرو بن مطعم ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، ان اباه اخبره بينا هو يسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه الناس مقفله من حنين علقه الاعراب يسالونه، فاضطروه إلى سمرة، فخطفت رداءه وهو على راحلته، فوقف، فقال:" ردوا علي ردائي، اتخشون علي البخل؟ فلو كان عدد هذه العضاه نعما لقسمته بينكم، ثم لا تجدوني بخيلا ولا جبانا ولا كذابا"، قال ابو عبد الرحمن: اخطا معمر في نسب عمر بن محمد بن عمرو، وهو عمر بن محمد بن جبير بن مطعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عمرو بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ بَيْنَا هُوَ يَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ النَاسٌ مَقْفَلَهُ مِنْ حُنَيْنٍ عَلِقَهُ الْأَعْرَابُ يَسْأَلُونَهُ، فَاضْطَرُّوهُ إِلَى سَمُرَةٍ، فَخَطِفَتْ رِدَاءَهُ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَوَقَفَ، فَقَالَ:" رُدُّوا عَلَيَّ رِدَائِي، أَتَخْشَوْنَ عَلَيَّ الْبُخْلَ؟ فَلَوْ كَانَ عَدَدُ هَذِهِ الْعِضَاهِ نَعَمًا لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ، ثُمَّ لَا تَجِدُونِي بَخِيلًا وَلَا جَبَانًا وَلَا كَذَّابًا"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَخْطَأَ مَعْمَرٌ فِي نَسَبِ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، وَهُوَ عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین سے واپسی پر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، دوسرے لوگ بھی ہمراہ تھے کہ کچھ دیہاتیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں روک کر مال غنیمت مانگنا شروع کر دیا حتی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ببول کے ایک درخت کے نیچے پناہ لینے پر مجبور کر دیا، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر بھی کسی نے کھینچ لی اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور فرمایا کہ مجھے میری چادر واپس دے دو اگر ان کانٹوں کی تعداد کے برابر بھی میرے پاس نعمتیں ہوں تو میں تمہارے پاس نعمتیں ہوں تو میں تمہارے درمیان ہی انہیں تقسیم کر دوں اور تم مجھے پھر بھی بخیل، جھوٹا یا بزدل نہ پاؤں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بكر ، قال: اخبرنا ابن جريج ، قال: اخبرني عمرو بن دينار ، عن جبير بن مطعم ، قال: اضللت جملا لي يوم عرفة، فانطلقت إلى عرفة ابتغيه، فإذا انا بمحمد صلى الله عليه وسلم" واقف في الناس بعرفة على بعيره عشية عرفة، وذلك بعدما انزل عليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: أَضْلَلْتُ جَمَلًا لِي يَوْمَ عَرَفَةَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى عَرَفَةَ أَبْتَغِيهِ، فَإِذَا أنا بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" وَاقِفٌ فِي النَّاسِ بِعَرَفَةَ عَلَى بَعِيرِهِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ، وَذَلِكَ بَعْدَمَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ".
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن جريج أبهم فى هذا الإسناد من سمع منه عن جبير
سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میدان عرفات میں میرا اونٹ گم ہو گیا، میں اسے تلاش کرنے کے لئے نکلا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں وقوف کئے ہوئے ہیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب ان پر نزول وحی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا .
فائدہ۔ دراصل قریش کے لوگ میدان عرفات میں نہیں جاتے تھے اور انہیں حمس کہا جاتا تھا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسم کو توڑ ڈالا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا ابن ابي ذئب ، عن الحارث بن عبد الرحمن ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، قال: بينا نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بطريق مكة، إذ قال:" يطلع عليكم اهل اليمن كانهم السحاب، هم خيار من في الارض"، فقال رجل من الانصار: ولا نحن يا رسول الله؟ فسكت، قال: ولا نحن يا رسول الله؟ فسكت، قال: ولا نحن يا رسول الله؟، فقال في الثالثة كلمة ضعيفة:" إلا انتم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، إِذْ قَالَ:" يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْيَمَنِ كَأَنَّهُمْ السَّحَابُ، هُمْ خِيَارُ مَنْ فِي الْأَرْضِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: وَلَا نَحْنُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: وَلَا نَحْنُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: وَلَا نَحْنُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ كَلِمَةً ضَعِيفَةً:" إِلَّا أَنْتُمْ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا: تمہارے پاس بادلوں کے ٹکڑوں کی طرح اہل زمین میں سب سے بہتر لوگ یعنی اہل یمن آرہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ!! کیا وہ ہم سے بھی بہتر ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں آہستہ سے فرمایا: سوائے تمہارے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، وعبد الرحمن ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن سليمان بن صرد ، عن جبير بن مطعم ، قال: تذاكرنا الغسل من الجنابة عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" اما انا فافيض على راسي ثلاثا"، وقال عبد الرحمن: ذكرت الجنابة عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اما انا فآخذ بكفي ثلاثا، فافيض على راسي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعُ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: تَذَاكَرْنَا الْغُسْلَ مِنَ الْجَنَابَةِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَمَّا أَنَا فَأُفِيضُ عَلَى رَأْسِي ثَلَاثًا"، وقال عَبْدُ الرَّحْمَنِ: ذُكِرَتْ الْجَنَابَةُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَّا أَنَا فَآخُذُ بِكَفِّي ثَلَاثًا، فَأُفِيضُ عَلَى رَأْسِي".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں غسل ت کا تذکر ہ کر رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ میں تو دونوں ہتھیلیوں میں بھر کر پانی لیتا ہوں اور تین مرتبہ اپنے سر پر بہا لیتا ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، قال: حدثنا شعبة ، قال: حدثنا النعمان بن سالم قال: سمعت إنسانا لا احفظ اسمه يحدث، عن جبير بن مطعم ، قال: قلت: يا رسول الله، إن اناسا يزعمون انه ليس لنا اجور بمكة؟، قال:" لتاتينكم اجوركم ولو كان احدكم في جحر ثعلب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قال: حَدَّثَنَا النُّعْمَانُ بْنُ سَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ إِنْسَانًا لَا أَحْفَظُ اسْمَهُ يُحَدِّثُ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُنَاسًا يَزْعُمُونَ أَنَّهُ لَيْسَ لَنَا أُجُورٌ بِمَكَّةَ؟، قَالَ:" لَتَأْتِيَنَّكُمْ أُجُورُكُمْ وَلَوْ كَانَ أَحَدُكُمْ فِي جُحْرِ ثَعْلَبٍ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ!! کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مکہ مکر مہ میں ہمیں کوئی اجر نہیں ملا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ غلط کہتے ہیں، تمہیں تمہارا اجروثواب ضرور ملے گا خواہ تم لومڑی کے بل میں ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الراوي عن جبير بن مطعم
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، قال: حدثني عبد الله بن المبارك ، عن يونس بن يزيد ، عن الزهري ، قال: اخبرني سعيد بن المسيب قال: حدثني جبير بن مطعم ، انه جاء وعثمان بن عفان يكلمان رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما قسم من خمس حنين بين بني هاشم، وبني المطلب، فقالا: يا رسول الله، قسمت لإخواننا بني المطلب، وبني عبد مناف، ولم تعطنا شيئا، وقرابتنا مثل قرابتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما ارى هاشما، والمطلب شيئا واحدا"، قال جبير: ولم يقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم لبني عبد شمس، ولا لبني نوفل من ذلك الخمس كما قسم لبني هاشم وبني المطلب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ قَالَ: حَدَّثَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ ، أَنَّهُ جَاءَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ يُكَلِّمَانِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا قَسَمَ مِنْ خُمُسِ حُنَيْنٍ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ، وَبَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا، وَقَرَابَتُنَا مِثْلُ قَرَابَتِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا أَرَى هَاشِمًا، وَالْمُطَّلِبَ شَيْئًا وَاحِدًا"، قَالَ جُبَيْرٌ: وَلَمْ يَقْسِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کے مال غنیمت میں اپنے قریبی رشتہ داروں بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے درمیان حصہ تقسیم فرمایا: تو میں اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ!! یہ جو بنو ہاشم ہیں ہم ان کی فضیلت کا انکار نہیں کرتے، کیونکہ آپ کا ایک مقام و مرتبہ ہے جو اللہ نے آپ کو ان کے ساتھ بیان فرمایا ہے لیکن یہ جو بنو مطلب ہیں آپ نے انہیں تو عطاء فرما دیا اور ہمیں چھوڑ دیا؟ لیکن وہ اور ہم آپ کے ساتھ ایک جیسی نسبت اور مقام رکھتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دراصل یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں مجھ سے جدا ہوئے اور نہ زمانہ اسلام میں اور بنو ہاشم اور بنومطلب ایک ہی چیز ہیں یہ کہہ کر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھائیں۔
سیدنا جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میں نے نوافل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ اللہ اکبر کبیرا، تین مرتبہ والحمدللہ کثیرا اور تین مرتبہ سبحان اللہ بکر ۃ واصیلا اور یہ دعاء پڑھتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! میں شیطان مردوں کے ہمز، نفث اور نفخ سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، عمرو کہتے ہیں کہ ہمز سے مراد وہ موت ہے جو ابن آدم کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، نفخ سے مراد تکبر ہے اور نفث سے مراد شعر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عاصم العنزي
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، وبهز ، قالا: حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، قال: سمعت بعض إخوتي يحدث، عن ابي ، عن جبير بن مطعم ، انه اتى النبي صلى الله عليه وسلم في فدى المشركين، وقال بهز: في فدى اهل بدر، وقال ابن جعفر: وما اسلم يومئذ، قال:" فانتهيت إليه وهو يصلي المغرب، وهو يقرا فيها بالطور"، قال: فكانما صدع قلبي حيث سمعت القرآن، وقال بهز في حديثه: فكانما صدع قلبي حين سمعت القرآن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَبَهْزٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ بَعْضَ إِخْوَتِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فِدَى الْمُشْرِكِينَ، وَقَالَ بَهْزٌ: فِي فِدَى أَهْلِ بَدْرٍ، وَقَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: وَمَا أَسْلَمَ يَوْمَئِذٍ، قَالَ:" فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي الْمَغْرِبَ، وَهُوَ يَقْرَأُ فِيهَا بِالطُّورِ"، قَالَ: فَكَأَنَّمَا صُدِعَ قَلْبِي حَيْثُ سَمِعْتُ الْقُرْآنَ، وَقَالَ بَهْزٌ فِي حَدِيثِهِ: فَكَأَنَّمَا صُدِعَ قَلْبِي حِينَ سَمِعْتُ الْقُرْآنَ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ بدر کے قیدیوں کے فدیہ کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت تک انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت طور کی تلاوت شروع فرما دی، جب قرآن کی آواز میرے کانوں تک پہنچی تو میرا دل لرزنے لگا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 765، م: 463 دون قوله: فكأنما صدع قلبي حيث سمعت القرآن، لابهام أخي سعد بن إبراهيم الذى سمع منه هذا الحديث
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں غسل ت کا تذکر ہ کر رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ میں تو دونوں ہتھیلیوں میں بھر کر پانی لیتا ہوں اور تین مرتبہ اپنے سر پر بہا لیتا ہوں۔