(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، قال: حدثنا ابان هو العطار ، قال: حدثنا يحيى يعني ابن ابي كثير ، عن ابي سلمة ، عن محمد بن عبد الله بن زيد ، ان اباه حدثه، انه شهد النبي صلى الله عليه وسلم على المنحر، ورجلا من قريش، وهو يقسم اضاحي، فلم يصبه منها شيء، ولا صاحبه، فحلق رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه في ثوبه، فاعطاه، فقسم منه على رجال، وقلم اظفاره، فاعطاه صاحبه، قال:" فإنه لعندنا مخضوب بالحناء والكتم" يعني شعره.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ الْعَطَّارُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَنْحَرِ، وَرَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ، وَهُوَ يَقْسِمُ أَضَاحِيَّ، فَلَمْ يُصِبْهُ مِنْهَا شَيْءٌ، وَلَا صَاحِبَهُ، فَحَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ، فَأَعْطَاهُ، فَقَسَمَ مِنْهُ عَلَى رِجَالٍ، وَقَلَّمَ أَظْفَارَهُ، فَأَعْطَاهُ صَاحِبَهُ، قَالَ:" فَإِنَّهُ لَعِنْدَنَا مَخْضُوبٌ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ" يَعْنِي شَعْرَهُ.
سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور ایک قریشی آدمی منیٰ کے میدان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا گوشت تقسیم کر رہے تھے لیکن وہ انہیں یا ان کے ساتھی کو نہ مل سکا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں سر منڈوا کر بال رکھ لئے اور وہ انہیں دے دیئے اور اس میں کچھ بال چند لوگوں کو بھی دیئے، پھر اپنے ناخن تراشے تو وہ ان کے ساتھی کو دے دیئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو داود الطيالسي ، قال: حدثنا ابان العطار ، عن يحيى بن ابي كثير ، ان ابا سلمة حدثه، ان محمد بن عبد الله بن زيد اخبره، عن ابيه ، انه شهد النبي صلى الله عليه وسلم عند المنحر هو ورجل من الانصار" فقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحايا، فلم يصبه ولا صاحبه شيء، فحلق راسه في ثوبه، فاعطاه وقسم منه على رجال، وقلم اظفاره، فاعطاه صاحبه، فإن شعره عندنا مخضوب بالحناء والكتم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْمَنْحَرِ هُوَ وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ" فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَايَا، فَلَمْ يُصِبْهُ وَلَا صَاحِبَهُ شَيْءٌ، فَحَلَقَ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ، فَأَعْطَاهُ وَقَسَمَ مِنْهُ عَلَى رِجَالٍ، وَقَلَّمَ أَظْفَارَهُ، فَأَعْطَاهُ صَاحِبَهُ، فَإِنَّ شَعْرَهُ عِنْدَنَا مَخْضُوبٌ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ".
سیدنا عبداللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور ایک قریشی آدمی منیٰ کے میدان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا گوشت تقسیم کر رہے تھے لیکن وہ انہیں یا ان کے ساتھی کو نہ مل سکا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں سر منڈوا کر بال رکھ لئے اور وہ انہیں دے دیئے اور اس میں کچھ بال چند لوگوں کو بھی دیئے، پھر اپنے ناخن تراشے تو وہ ان کے ساتھی کو دے دیئے۔
سیدنا عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ بال جن پر مہندی اور وسمہ کا خضاب کیا گیا تھا، آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں خواب میں اذان کے کلمات سیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یہ خواب بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کلمات بلال کو سکھا دو، چنانچہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! چونکہ یہ خواب میں نے دیکھا ہے، اس لئے میری خواہش ہے کہ اقامت میں کہوں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اقامت کہنے کی اجازت دے دی، اس طرح اقامت انہوں نے کہی اور اذان سیدنا بلال نے دی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى سهل، وقد اختلف فى إسناده
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: اخبرنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وذكر محمد بن مسلم الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن عبد الله بن زيد بن عبد ربه ، قال: لما اجمع رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يضرب بالناقوس يجمع للصلاة الناس، وهو له كاره لموافقته النصارى، طاف بي من الليل طائف وانا نائم، رجل عليه ثوبان اخضران، وفي يده ناقوس يحمله قال: فقلت له: يا عبد الله، اتبيع الناقوس؟ قال: وما تصنع به؟ قلت: ندعو به إلى الصلاة، قال: افلا ادلك على خير من ذلك؟ قال: فقلت: بلى، قال: تقول: الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، قال: ثم استاخرت غير بعيد. قال: ثم تقول: إذا اقمت الصلاة الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، قال: فلما اصبحت اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بما رايت. قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن هذه لرؤيا حق إن شاء الله" ثم امر بالتاذين، فكان بلال مولى ابي بكر يؤذن بذلك، ويدعو رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة، قال: فجاءه فدعاه ذات غداة إلى الفجر فقيل له: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نائم، قال: فصرخ بلال باعلى صوته الصلاة خير من النوم، قال سعيد بن المسيب: فادخلت هذه الكلمة في التاذين إلى صلاة الفجر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ ، قَالَ: لَمَّا أَجْمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَضْرِبَ بِالنَّاقُوسِ يَجْمَعُ لِلصَّلَاةِ النَّاسَ، وَهُوَ لَهُ كَارِهٌ لِمُوَافَقَتِهِ النَّصَارَى، طَافَ بِي مِنَ اللَّيْلِ طَائِفٌ وَأَنَا نَائِمٌ، رَجُلٌ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ، وَفِي يَدِهِ نَاقُوسٌ يَحْمِلُهُ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ؟ قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ قُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى، قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: ثُمَّ اسْتَأْخَرْتُ غَيْرَ بَعِيدٍ. قَالَ: ثُمَّ تَقُولُ: إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ. قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ" ثُمَّ أَمَرَ بِالتَّأْذِينِ، فَكَانَ بِلَالٌ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ يُؤَذِّنُ بِذَلِكَ، وَيَدْعُو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: فَجَاءَهُ فَدَعَاهُ ذَاتَ غَدَاةٍ إِلَى الْفَجْرِ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمٌ، قَالَ: فَصَرَخَ بِلَالٌ بِأَعْلَى صَوْتِهِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ: فَأُدْخِلَتْ هَذِهِ الْكَلِمَةُ فِي التَّأْذِينِ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرِ.
سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کے لئے جمع کرنے کے طریقہ کار میں ناقوس بجانے پر اتفاق رائے کر لیاگو کہ نصاری کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے کراہت بھی ظاہر تھی تو رات کو خواب میں میرے پاس ایک آدمی آیا اس نے دو سبز کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک ناقوس تھا جو اس نے اٹھا رکھا تھا، میں نے اس سے کہا اے بندہ خدا! یہ ناقوس بیچوگے؟ اس نے پوچھا کہ تم اس کا کیا کر و گے؟ میں نے کہ ہم اسے بجا کر لوگوں کو نماز کی دعوت دیا کر یں گے، اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ نہ بتادوں؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ اس نے کہا تم یوں کہا کر و۔ اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان محمد الرسول اللہ، اشہد ان محمد الرسول اللہ، حی علی الصلاۃ حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح حی علی الفلاح، اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ۔ پھر کچھ ہی دیر بعد اس نے کہا کہ جب نماز کھڑی ہو نے لگے تو تم یوں کہا کر و اور آگے وہی کلمات ایک ایک مرتبہ بتائے اور حی علی الفلاح کے بعد دو مرتبہ قد قامت الصلاۃ کا اضافہ کر دیا، جب صبح ہوئی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا خواب بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہو گا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کا حکم دیا تو سیدنا ابوبکر صدیق کے آزاد کر دہ غلام سیدنا بلال اذان دینے لگے اور نماز کی طرف بلانے لگے، ایک دن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فجر کے لئے اذان دی، کسی نے انہیں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہیں، تو انہوں نے بلند آواز سے پکار کر کہا الصلاۃ خیر من النوم، سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ اس وقت سے فجر کی اذان میں یہ کلمہ بھی شامل کر لیا گیا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن دون قوله: «ويدعو رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة....» فهي زياده منكرة، دلس فيه ابن إسحاق
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثني ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي ، عن محمد بن عبد الله بن زيد بن عبد ربه ، قال: حدثني عبد الله بن زيد ، قال: لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناقوس ليضرب به للناس في الجمع للصلاة طاف بي، وانا نائم رجل يحمل ناقوسا في يده، فقلت له: يا عبد الله، اتبيع الناقوس؟، قال: ما تصنع به؟، قال: فقلت: ندعو به إلى الصلاة، قال: افلا ادلك على ما هو خير من ذلك؟، قال: فقلت له: بلى. قال: تقول: الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، ثم استاخر غير بعيد، ثم قال: تقول: إذا اقيمت الصلاة الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله. فلما اصبحت، اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بما رايت، فقال:" إنها لرؤيا حق إن شاء الله، فقم مع بلال، فالق عليه ما رايت، فليؤذن به، فإنه اندى صوتا منك" قال: فقمت مع بلال، فجعلت القيه عليه، ويؤذن به، قال: فسمع بذلك عمر بن الخطاب وهو في بيته فخرج يجر رداءه، يقول: والذي بعثك بالحق، لقد رايت مثل الذي اري، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فلله الحمد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ: لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ فِي الْجَمْعِ لِلصَّلَاةِ طَافَ بِي، وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ؟، قَالَ: مَا تَصْنَعُ بِهِ؟، قَالَ: فَقُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: بَلَى. قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ قَالَ: تَقُولُ: إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ، فَقَالَ:" إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ، فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ، فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ، فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ" قَالَ: فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ، فَجَعَلْتُ أُلْقِيهِ عَلَيْهِ، وَيُؤَذِّنُ بِهِ، قَالَ: فَسَمِعَ بِذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ، يَقُولُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي أُرِيَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلِلَّهِ الْحَمْدُ".
سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کے لئے جمع کرنے کے طریقہ کار میں ناقوس بجانے پر اتفاق رائے کر لیاگو کہ نصاری کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے کراہت بھی ظاہر تھی تو رات کو خواب میں میرے پاس ایک آدمی آیا اس نے دو سبز کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک ناقوس تھا جو اس نے اٹھا رکھا تھا، میں نے اس سے کہا اے بندہ خدا! یہ ناقوس بیچو گے؟ اس نے پوچھا کہ تم اس کا کیا کر و گے؟ میں نے کہ ہم اسے بجا کر لوگوں کو نماز کی دعوت دیا کر یں گے، اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ نہ بتادوں؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ اس نے کہا تم یوں کہا کر و۔ اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان محمد الرسول اللہ، اشہد ان محمد الرسول اللہ، حی علی الصلاۃ حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح حی علی الفلاح، اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ۔ پھر کچھ ہی دیر بعد اس نے کہا کہ جب نماز کھڑی ہو نے لگے تو تم یوں کہا کر و اور آگے وہی کلمات ایک ایک مرتبہ بتائے اور حی علی الفلاح کے بعد دو مرتبہ قد قامت الصلاۃ کا اضافہ کر دیا، جب صبح ہوئی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا خواب بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہو گا، تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو کر اسے یہ کلمات بتاتے جاؤ اور وہ اذان دیتا جائے، کیونکہ اس کی آواز تم سے زیادہ اونچی ہے، چنانچہ میں سیدنا بلال کے ساتھ کھڑا ہو گیا، میں انہیں یہ کلمات بتاتا جاتا اور وہ اذان دیتے جاتے تھے، سیدنا عمر نے اپنے گھر میں جب اذان کی آواز سنی تو چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہنے لگے کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فللہ الحمد۔