(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير . قال: حدثني ابي: قال: سمعت يونس يحدث، عن الزهري ، عن مسلم بن يزيد ؛ احد بني سعد بن بكر، انه سمع ابا شريح الخزاعي ، ثم الكعبي، وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول: اذن لنا رسول الله يوم الفتح في قتال بني بكر حتى اصبنا منهم ثارنا وهو بمكة، ثم امر رسول الله صلى الله عليه وسلم برفع السيف، فلقي رهط منا الغد رجلا من هذيل في الحرم يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليسلم وكان قد وترهم في الجاهلية، وكانوا يطلبونه، فقتلوه، وبادروا ان يخلص إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيامن، فلما بلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم غضب غضبا شديدا، والله ما رايته غضب غضبا اشد منه، فسعينا إلى ابي بكر وعمر وعلي رضي الله عنهم نستشفعهم، وخشينا ان نكون قد هلكنا، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، قام، فاثنى على الله عز وجل بما هو اهله، ثم قال:" اما بعد، فإن الله عز وجل هو حرم مكة، ولم يحرمها الناس، وإنما احلها لي ساعة من النهار امس، وهي اليوم حرام كما حرمها الله عز وجل اول مرة، وإن اعتى الناس على الله عز وجل ثلاثة رجل قتل فيها، ورجل قتل غير قاتله، ورجل طلب بذحل في الجاهلية، وإني والله لادين هذا الرجل الذي قتلتم"، فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ . قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي: قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ يُحَدِّثُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَزِيدَ ؛ أَحَدِ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيَّ ، ثُمَّ الْكَعْبِيَّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: أَذِنَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ يَوْمَ الْفَتْحِ فِي قِتَالِ بَنِي بَكْرٍ حَتَّى أَصَبْنَا مِنْهُمْ ثَأْرَنَا وَهُوَ بِمَكَّةَ، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَفْعِ السَّيْفِ، فَلَقِيَ رَهْطٌ مِنَّا الْغَدَ رَجُلًا مِنْ هُذَيْلٍ فِي الْحَرَمِ يَؤُمُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُسْلِمَ وَكَانَ قَدْ وَتَرَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانُوا يَطْلُبُونَهُ، فَقَتَلُوهُ، وَبَادَرُوا أَنْ يَخْلُصَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْمَنَ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ غَضِبَ غَضَبًا أَشَدَّ مِنْهُ، فَسَعَيْنَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ وعُمَرَ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ نَسْتَشْفِعُهُمْ، وَخَشِينَا أَنْ نَكُونَ قَدْ هَلَكْنَا، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاةَ، قَامَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ هُوَ حَرَّمَ مَكَّةَ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، وَإِنَّمَا أَحَلَّهَا لِي سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ أَمْسِ، وَهِيَ الْيَوْمَ حَرَامٌ كَمَا حَرَّمَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوَّلَ مَرَّةٍ، وَإِنَّ أَعْتَى النَّاسِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثَةٌ رَجُلٌ قَتَلَ فِيهَا، وَرَجُلٌ قَتَلَ غَيْرَ قَاتِلِهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَ بِذَحْلٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَدِيَنَّ هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي قَتَلْتُمْ"، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابوشریح سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بنوبکر سے قتال کرنے کی اجازت دیدی چنانچہ ہم نے ان سے اپنا انتقام لیا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکر مہ میں ہی تھے پھر آپ نے ہمیں تلوار اٹھالینے کا حکم دیا اگلے دن ہمارے ایک گروہ کو حرم شریف میں بنوہذیل کا ایک آدمی ملا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے کے ارادے سے جارہا تھا اس نے زمانہ جاہلیت میں انہیں بہت نقصان پہنچایا تھا اور وہ اس کی تلاش میں تھے اس لئے انہوں نے قبل اس کے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا اور اپنے لئے پروانہ امن حاصل کرتا اسے قتل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کے اطلاع ملی تو آپ انتہائی ناراض ہوئے واللہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ غصے کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا ہم لوگ جلدی سے سیدنا ابوبکر عمرو اور علی کے پاس گئے تاکہ ان سے سفارش کی درخواست کر یں اور ہم اپنی ہلاکت کے خوف سے لرز رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہو نے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء بیان کی جو اس کے شایان شان ہو بیان فرمائی امابعد کہہ کر فرمایا کہ مکہ مکر مہ کو اللہ نے ہی حرم قرار دیا ہے انسانوں نے نہیں میرے لئے بھی کل کے دن صرف کچھ دیر کے لئے اس میں قتال کو حلال کیا گیا تھا اور اب وہ اسی طرح قابل احترام ہے جیسے ابتداء میں اللہ نے اسے حرم قرار دیا تھا اور اللہ کے نزدیک تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش تین طرح کے لوگ ہیں۔ ١۔ حرم میں کسی کو قتل کرنے والا۔ ٢۔ اپنے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے والا۔ ٣۔ زمانہ جاہلیت کے خون کا قصاص لینے والا۔ اور واللہ میں اس شخص کی دیت ضرور ادا کر وں گا جسے تم نے قتل کیا ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت ادا کر دی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: «وإن أعتى الناس على الله...... فى الجاهلية» فحسن لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهاله مسلم بن يزيد