(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، عن ابن ابي خالد وزكريا ، عن الشعبي ، قال: اخبرني عروة بن مضرس ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو بجمع، فقلت: يا رسول الله، جئتك من جبلي طيء، اتعبت نفسي وانصبت راحلتي، والله ما تركت من حبل إلا وقفت عليه، فهل لي من حج؟، فقال:" من شهد معنا هذه الصلاة يعني صلاة الفجر بجمع، ووقف معنا حتى نفيض منه، وقد افاض قبل ذلك من عرفات ليلا او نهارا، فقد تم حجه، وقضى تفثه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ وَزَكَرِيَّا ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ مُضَرِّسٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِجَمْعٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُكَ مِنْ جَبَلَيْ طَيِّءٍ، أَتْعَبْتُ نَفْسِي وَأَنْصَبْتُ رَاحِلَتِي، وَاللَّهِ مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلَّا وَقَفْتُ عَلَيْهِ، فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ؟، فَقَالَ:" مَنْ شَهِدَ مَعَنَا هَذِهِ الصَّلَاةَ يَعْنِي صَلَاةَ الْفَجْرِ بِجَمْعٍ، وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّى نُفِيضَ مِنْهُ، وَقَدْ أَفَاضَ قَبْلَ ذَلِكَ مِنْ عَرَفَاتٍ لَيْلًا أَوْ نَهَارًا، فَقَدْ تَمَّ حَجُّهُ، وَقَضَى تَفَثَهُ".
سیدنا عروہ بن مضرس سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ حاضر ہوا اس وقت آپ مزدلفہ میں تھے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بنوطی کے دو پہاڑوں کے درمیان سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں میں نے اس مقصد کے لئے اپنے آپ کو تھکا دیا اور اپنی سواری کو مشقت میں ڈال دیا ہے واللہ میں نے ریت کا کوئی ایسا لمبا ٹکڑا نہیں چھوڑا جہاں میں ٹھہرا نہ ہوں کیا میرا حج قبول ہو گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ہمارے ساتھ آج فجر کی نماز میں شرکت کی اور ہمارے ساتھ وقوف کر لیا یہاں تک کہ وہ واپس منیٰ کی طرف چلا گیا اور اس سے پہلے وہ رات یا دن میں وقوف عرفات کر چکا تھا تو اس کا حج مکمل ہو گیا اور اس کی محنت وصولی ہو گئی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، هشيم بن بشير مدلس وقد عنعن، لكنه توبع
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، قال: حدثنا زكريا ، عن الشعبي ، قال: حدثني عروة بن مضرس بن اوس بن حارثة بن لام انه حج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم يدرك الناس إلا ليلا وهو بجمع، فانطلق إلى عرفات، فافاض منها، ثم رجع، فاتى جمعا، فقال: يا رسول الله، اتعبت نفسي وانصبت راحلتي، فهل لي من حج؟، فقال:" من صلى معنا صلاة الغداة بجمع، ووقف معنا حتى نفيض، وقد افاض قبل ذلك من عرفات ليلا او نهارا، فقد تم حجه، وقضى تفثه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ مُضَرِّسِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ أَنَّهُ حَجَّ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُدْرِكْ النَّاسَ إِلَّا لَيْلًا وَهُوَ بِجَمْعٍ، فَانْطَلَقَ إِلَى عَرَفَاتٍ، فَأَفَاضَ مِنْهَا، ثُمَّ رَجَعَ، فَأَتَى جَمْعًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتْعَبْتُ نَفْسِي وَأَنْصَبْتُ رَاحِلَتِي، فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ؟، فَقَالَ:" مَنْ صَلَّى مَعَنَا صَلَاةَ الْغَدَاةِ بِجَمْعٍ، وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّى نُفِيضَ، وَقَدْ أَفَاضَ قَبْلَ ذَلِكَ مِنْ عَرَفَاتٍ لَيْلًا أَوْ نَهَارًا، فَقَدْ تَمَّ حَجُّهُ، وَقَضَى تَفَثَهُ".
سیدنا عروہ بن مضرس سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ حاضر ہوا اس وقت آپ مزدلفہ میں تھے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بنوطی کے دو پہاڑوں کے درمیان سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں میں نے اس مقصد کے لئے اپنے آپ کو تھکا دیا اور اپنی سواری کو مشقت میں ڈال دیا ہے واللہ میں نے ریت کا کوئی ایسا لمبا ٹکڑا نہیں چھوڑا جہاں میں ٹھہرا نہ ہوں کیا میرا حج قبول ہو گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ہمارے ساتھ آج فجر کی نماز میں شرکت کی اور ہمارے ساتھ وقوف کر لیا یہاں تک کہ وہ واپس منیٰ کی طرف چلا گیا اور اس سے پہلے وہ رات یا دن میں وقوف عرفات کر چکا تھا تو اس کا حج مکمل ہو گیا اور اس کی محنت وصولی ہو گئی۔