سیدنا عتبان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز پڑھی، جس وقت آپ نے سلام پھیرا، ہم بھی سلام پھیر کر فارغ ہو گئے، یہ نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مسجد میں پڑھی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الزهري ، فسئل سفيان عمن؟، قال: هو محمود إن شاء الله، ان عتبان بن مالك كان رجلا محجوب البصر، وانه ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم التخلف عن الصلاة، قال:" هل تسمع النداء؟"، قال: نعم، قال: فلم يرخص له.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، فَسُئِلَ سُفْيَانُ عَمَّنْ؟، قَالَ: هُوَ مَحْمُودٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ كَانَ رَجُلًا مَحْجُوبَ الْبَصَرِ، وَأَنَّهُ ذَكَرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّخَلُّفَ عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ:" هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ.
سیدنا عتبان بن مالک کی بینائی انتہائی کمزور تھی (تقریبا نابینا تھے) انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکر ہ کیا کہ وہ جماعت کی نماز سے رہ جاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں! تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عدم حاضری کی رخصت نہ دی۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف لشذوذه ، فقد خالف فيه ابن عيينة أصحاب الزهري
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا سفيان بن حسين ، عن الزهري ، عن محمود بن الربيع ، او الربيع بن محمود شك يزيد، عن عتبان بن مالك ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: إني رجل ضرير البصر، وبيني وبينك هذا الوادي والظلمة، وسالته ان ياتي فيصلي في بيتي، فاتخذ مصلاه مصلى، فوعدني ان يفعل، فجاء هو وابو بكر، وعمر، فتسامعت به الانصار، فاتوه، وتخلف رجل منهم، يقال له: مالك بن الدخشن، وكان يزن بالنفاق، فاحتبسوا على طعام، فتذاكروا بينهم، فقالوا: ما تخلف عنا وقد علم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم زارنا إلا لنفاقه، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، فلما انصرف، قال:" ويحه، اما شهد ان لا إله إلا الله بها مخلصا، فإن الله عز وجل حرم النار على من شهد بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، أَوْ الرَّبِيعِ بْنِ مَحْمُودٍ شَكَّ يَزِيدُ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي رَجُلٌ ضَرِيرُ الْبَصَرِ، وَبَيْنِي وَبَيْنَكَ هَذَا الْوَادِي وَالظُّلْمَةُ، وَسَأَلْتُهُ أَنْ يَأْتِيَ فَيُصَلِّيَ فِي بَيْتِي، فَأَتَّخِذُ مُصَلَّاهُ مُصَلًّى، فَوَعَدَنِي أَنْ يَفْعَلَ، فَجَاءَ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَتَسَامَعَتْ بِهِ الْأَنْصَارُ، فَأَتَوْهُ، وَتَخَلَّفَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ، وَكَانَ يُزَنُّ بِالنِّفَاقِ، فَاحُتَبَسُوا عَلَى طَعَامٍ، فَتَذَاكَرُوا بَيْنَهُمْ، فَقَالُوا: مَا تَخَلَّفَ عَنَّا وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَارَنَا إِلَّا لِنِفَاقِهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" وَيْحَهُ، أَمَا شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ بِهَا مُخْلِصًا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ النَّارَ عَلَى مَنْ شَهِدَ بِهَا".
سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: کہ میری نظر کمزور ہے اور میرے اور آپ کے درمیان یہ وادی اور ظلمت بھی حائل ہے، آپ کسی وقت تشریف لا کر میرے گھر میں نماز پڑھ دیں تو میں اسے ہی اپنے لئے جائے نماز منتخب کر لوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا، چنانچہ ایک دن سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، انصار کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے آنے لگے، لیکن ایک آدمی " جس کا نام مالک بن وخش تھا " آنے سے رہ گیا اور لوگ اس پر نفاق کا طعنہ اور الزام پہلے ہی سے لگاتے تھے۔ لوگ کھانے کے وقت تک رکے رہے اور آپس میں باتیں کرنے لگے، باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے کہ اسے پتہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں لیکن وہ محض اپنے نفاق کی وجہ سے ہی پیچھے رہ گیا ہے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، نماز سے فارغ ہو کر فرمانے لگے افسوس! کیا وہ خلوص جل کے ساتھ " لا الہ اللہ " کی گواہی نہیں دیتا؟ جو شخص اس کلمے کی گواہی دیتا ہے، اللہ نے اس پر جہنم کی آگ حرام قرار دے دی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف بهذه السياقة، سفيان بن حسين ضعيف الحديث عن الزهري
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن محمود بن الربيع ، عن عتبان بن مالك ، انه قال: يا رسول الله، إن السيول تحول بيني وبين مسجد قومي، فاحب ان تاتيني، فتصلي في مكان في بيتي اتخذه مسجدا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سنفعل"، قال: فلما اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم غدا على ابي بكر، فاستتبعه، فلما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" اين تريد؟" فاشرت له إلى ناحية من البيت، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصففنا خلفه، فصلى بنا ركعتين، وحبسناه على خزير صنعناه، فسمع اهل الدار يعني اهل القرية، فجعلوا يثوبون، فامتلا البيت، فقال رجل من القوم: اين مالك بن الدخشم، فقال رجل: ذاك من المنافقين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقوله يقول: لا إله إلا الله يبتغي بها وجه الله"، قال: اما نحن فنرى وجهه وحديثه إلى المنافقين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقوله، يقول: لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله"، فقال رجل من القوم: بلى، يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لئن وافى عبد يوم القيامة يقول: لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله إلا حرم على النار"، فقال محمود: فحدثت بذلك قوما فيهم ابو ايوب، قال: ما اظن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال هذا، قال: فقلت: لئن رجعت وعتبان حي لاسالنه، فقدمت وهو اعمى، وهو إمام قومه، فسالته، فحدثني كما حدثني اول مرة، وكان عتبان بدريا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ السُّيُولَ تَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي، فَأُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَنِي، فَتُصَلِّيَ فِي مَكَانٍ فِي بَيْتِي أَتَّخِذُهُ مَسْجِدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَنَفْعَلُ"، قَالَ: فَلَمَّا أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَا عَلَى أَبِي بَكْرٍ، فَاسْتَتْبَعَهُ، فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَيْنَ تُرِيدُ؟" فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصُفِفْنَا خَلْفَهُ، فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ، فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ، فَجَعَلُوا يَثُوبُونَ، فَامْتَلَأَ الْبَيْتُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُمِ، فَقَالَ رَجُلٌ: ذَاكَ مِنَ الْمُنَافِقِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُولُهُ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ"، قَالَ: أَمَّا نَحْنُ فَنَرَى وَجْهَهُ وَحَدِيثَهُ إِلَى الْمُنَافِقِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُولُهُ، يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَئِنْ وَافَى عَبْدٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا حَرِّمَ عَلَى النَّار"، فَقَالَ مَحْمُودٌ: فَحَدَّثْتُ بِذَلِكَ قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ، قَالَ: مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَذَا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَئِنْ رَجَعْتُ وَعِتْبَانُ حَيٌّ لَأَسْأَلَنَّهُ، فَقَدِمْتُ وَهُوَ أَعْمَى، وَهُوَ إِمَامُ قَوْمِهِ، فَسَأَلْتُهُ، فَحَدَّثَنِي كَمَا حَدَّثَنِي أَوَّلَ مَرَّةٍ، وَكَانَ عِتْبَانُ بَدْرِيًّا.
سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! میری قوم کی مسجد اور میرے درمیان سیلاب حائل ہو جاتا ہے، آپ کسی وقت تشریف لا کر میرے گھر میں نماز پڑھ دیں تو میں اسے ہی اپنے لئے جائے نماز منتخب کر لوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا، چنانچہ ایک دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا: تم کس جگہ کو جائے نماز بنانا چاہتے ہو؟ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، ہم نے ان کے پیچھے صف بندی کر لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر یم صلی اللہ علیہ کو کھانے پر روک لیا، انصار کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے آنے لگے، سارا گھر بھر گیا، ایک آدمی کہنے لگا کہ مالک بن دخشم کہاں ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ منافق ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے نہ کہو، وہ اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے، اس نے کہا کہ ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ اس کی توجہ اور باتیں منافقین کی طرف مائل ہو تی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جملہ دہرایا، دوسرے آدمی نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہوا قیامت کے دن آئے گا، اللہ نے اس پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیا ہے، محمود کہتے ہیں کہ یہ حدیث جب میں نے ایک جماعت کے سامنے بیان کی جن میں ایوب بھی تھے، تو وہ کہنے لگے میں نہیں سمجھتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: ہو گا، میں نے کہا کہ جس وقت میں مدینہ منورہ پہنچا اور سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ زندہ ہوئے تو میں ان سے یہ سوال ضرور کر وں گا، چنانچہ میں وہاں پہنچا تو وہ نابینا ہو چکے تھے اور اپنی قوم کی امامت فرماتے تھے، میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا: تو انہوں مجھے یہ حدیث اس طرح سنا دی جیسے پہلے سنائی تھی اور یہ بدری صحابی تھے۔
حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن محمود بن الربيع ، عن عتبان بن مالك ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إني قد انكرت بصري، فذكر معناه، إلا انه قال مالك بن الدخشن، وربما قال: الدخيشن، وقال:" حرم على النار"، ولم يقل كان بدريا.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ، وَرُبَّمَا قَالَ: الدُّخَيْشِنِ، وَقَالَ:" حُرِّمَ عَلَى النَّارِ"، وَلَمْ يَقُلْ كَانَ بَدْرِيًّا.
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، قال: حدثنا جرير يعني ابن حازم ، عن علي بن زيد بن جدعان ، قال: حدثني ابو بكر بن انس بن مالك ، قال: قدم ابي من الشام وافدا وانا معه، فلقينا محمود بن الربيع ، فحدث ابي حديثا، عن عتبان بن مالك ، قال ابي : اي بني، احفظ هذا الحديث، فإنه من كنوز الحديث، فلما قفلنا انصرفنا إلى المدينة، فسالنا عنه، فإذا هو حي، وإذا شيخ اعمى، قال: فسالناه عن الحديث، فقال: نعم، ذهب بصري على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، ذهب بصري، ولا استطيع الصلاة خلفك، فلو بوات في داري مسجدا فصليت فيه، فاتخذه مصلى، قال:" نعم، فإني غاد عليك غدا"، قال: فلما صلى من الغد التفت إليه، فقام حتى اتاه، فقال:" يا عتبان، اين تحب ان ابوئ لك؟" فوصف له مكانا، فبوا له، وصلى فيه، ثم حبس، او جلس وبلغ من حولنا من الانصار، فجاءوا حتى ملئت علينا الدار، فذكروا المنافقين وما يلقون من اذاهم وشرهم حتى صيروا امرهم إلى رجل منهم، يقال له: مالك بن الدخشم، وقالوا: من حاله ومن حاله، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ساكت، فلما اكثروا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اليس يشهد ان لا إله إلا الله؟" فلما كان في الثالثة، قالوا: إنه ليقوله، قال:" والذي بعثني بالحق لئن قالها صادقا من قلبه لا تاكله النار ابدا"، قال: فما فرحوا بشيء قط كفرحهم بما قال.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَدِمَ أَبِي مِنَ الشَّامِ وَافِدًا وَأَنَا مَعَهُ، فَلَقْينَا مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ ، فَحَدَّثَ أَبِي حَدِيثًا، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ أَبِي : أَيْ بُنَيَّ، احْفَظْ هَذَا الْحَدِيثَ، فَإِنَّهُ مِنْ كُنُوزِ الْحَدِيثِ، فَلَمَّا قَفَلْنَا انْصَرَفْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَسَأَلْنَا عَنْهُ، فَإِذَا هُوَ حَيٌّ، وَإِذَا شَيْخٌ أَعْمَى، قَالَ: فَسَأَلْنَاهُ عَنِ الْحَدِيثِ، فَقَالَ: نَعَمْ، ذَهَبَ بَصَرِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ بَصَرِي، وَلَا أَسْتَطِيعُ الصَّلَاةَ خَلْفَكَ، فَلَوْ بَوَّأْتَ فِي دَارِي مَسْجِدًا فَصَلَّيْتَ فِيهِ، فَأَتَّخِذُهُ مُصَلًّى، قَالَ:" نَعَمْ، فَإِنِّي غَادٍ عَلَيْكَ غَدًا"، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى مِنَ الْغَدِ الْتَفَتَ إِلَيْهِ، فَقَامَ حَتَّى أَتَاهُ، فَقَالَ:" يَا عِتْبَانُ، أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُبَوِّئَ لَكَ؟" فَوَصَفَ لَهُ مَكَانًا، فَبَوَّأَ لَهُ، وَصَلَّى فِيهِ، ثُمَّ حُبَسَ، أَوْ جَلَسَ وَبَلَغَ مَنَ حَوْلَنَا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَجَاءُوا حَتَّى مُلِئَتْ عَلَيْنَا الدَّارُ، فَذَكَرُوا الْمُنَافِقِينَ وَمَا يَلْقُونَ مِنْ أَذَاهِمْ وَشَرِّهِمْ حَتَّى صَيَّرُوا أَمْرَهُمْ إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُمِ، وَقَالُوا: مِنْ حَالِهِ وَمِنْ حَالِهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاكِتٌ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟" فَلَمَّا كَانَ فِي الثَّالِثَةِ، قَالُوا: إِنَّهُ لَيَقُولُهُ، قَالَ:" وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ لَئِنْ قَالَهَا صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ لَا تَأْكُلُهُ النَّارُ أَبَدًا"، قَالُ: فَمَا فَرِحُوا بِشَيْءٍ قَطُّ كَفَرَحِهِمْ بِمَا قَالَ.
ابوبکر بن انس کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب شام سے واپس آئے، میں ان کے ہمراہ تھا، تو ہماری ملاقات محمود بن ربیع سے ہو گئی انہوں نے میرے والد صاحب کو سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث سنائی والد صاحب نے فرمایا: بیٹے! اس حدیث کو یاد کر لو کہ یہ حدیث کا خزانہ ہے واپسی پر جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو ہم نے سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ وہ اس وقت حیات تھے لیکن انتہائی بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے، انہوں نے فرمایا: ہاں!
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة لضعف على بن زيد