وعن مسلم بن يسار قال سئل عمر بن الخطاب رضي الله عنه عن هذه الآية (وإذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم) قال عمر -[35]- بن الخطاب سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسال عنها فقال: «خلق آدم ثم مسح ظهره بيمينه فااستخرج منه ذرية فقال خلقت هؤلاء للجنة وبعمل اهل الجنة يعملون ثم مسح ظهره فاستخرج منه ذرية فقال خلقت هؤلاء للنار وبعمل اهل النار يعملون فقال رجل يا رسول الله ففيم العمل يا رسول الله قال فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله إذا خلق العبد للجنة استعمله بعمل اهل الجنة حتى يموت على عمل من اعمال اهل الجنة فيدخله الله الجنة وإذا خلق العبد للنار استعمله بعمل اهل النار حتى يموت على عمل من اعمال اهل النار فيدخله الله النار» . رواه مالك والترمذي وابو داود وَعَن مُسلم بن يسَار قَالَ سُئِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ (وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورهمْ) قَالَ عُمَرُ -[35]- بْنُ الْخَطَّابِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يسْأَل عَنْهَا فَقَالَ: «خلق آدم ثمَّ مسح ظَهره بِيَمِينِهِ فأاستخرج مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقَتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أهل الْجنَّة يعْملُونَ ثمَّ مسح ظَهره فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقَتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وبعمل أهل النَّار يعْملُونَ فَقَالَ رجل يَا رَسُول الله فَفِيمَ الْعَمَل يَا رَسُول الله قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ من أَعمال أهل الْجنَّة فيدخله الله الْجَنَّةَ وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعمال أهل النَّار فيدخله الله النَّار» . رَوَاهُ مَالك وَالتِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
مسلم بن یسار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا: ”جب تیرے رب نے بنی آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو پیدا کیا۔ “ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب ان سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرماتے ہوئے سنا: ”بے شک اللہ نے آدم ؑ کو پیدا فرمایا، پھر اپنا دایاں ہاتھ ان کی پشت پر پھیرا تو اس سے کچھ اولاد نکالی اور فرمایا: میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ اہل جنت کے سے عمل کریں گے، پھر ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو اس سے کچھ اولاد نکالی تو فرمایا: میں نے انہیں جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ اہل جہنم کے سے عمل کریں گے۔ (یہ سن کر) کسی آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! تو پھر عمل کس لیے کرنا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ کسی بندے کو جنت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اسے اہل جنت کے اعمال پر لگا دیتا ہے حتیٰ کہ وہ اہل جنت کے سے اعمال پر ہی فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے، اور جب وہ کسی بندے کو جہنم کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اسے جہنمیوں والے اعمال پر لگا دیتا ہے حتیٰ کہ وہ جہنمیوں والے اعمال پر ہی فوت ہوتا ہے تو وہ اس وجہ سے اس کو جہنم میں داخل کر دیتا ہے۔ “ اس حدیث کو مالک، ترمذی، اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه مالک في الموطأ (2/ 898 ح 1726) و الترمذي (3075 وقال: حسن و مسلم [بن يسار] لم يسمع من عمر) و أبو داود (4703) [والبغوي في شرح السنة (1/ 138، 139 ح 77)] ٭ مسلم بن يسار سمعه من نعيم بن ربيعة وھو رجل مجھول، و ثقه ابن حبان وحده و لبعض الحديث شواهد معنوية. انظر الاستذکار (8/ 261)»
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي يده كتابان فقال: «اتدرون ما هذان الكتابان فقلنا لا يا رسول الله إلا ان تخبرنا فقال للذي في يده اليمنى هذا كتاب من رب العالمين فيه اسماء اهل الجنة واسماء آبائهم وقبائلهم ثم اجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم ابدا ثم قال للذي في شماله هذا كتاب من رب العالمين فيه اسماء اهل النار واسماء آبائهم وقبائلهم ثم اجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم ابدا فقال اصحابه ففيم العمل يا رسول الله إن كان امر قد فرغ منه فقال سددوا وقاربوا فإن صاحب الجنة يختم له بعمل اهل الجنة وإن عمل اي عمل وإن صاحب النار يختم له بعمل اهل النار وإن عمل اي عمل -[36]- ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيديه فنبذهما ثم قال فرغ ربكم من العباد فريق في الجنة وفريق في السعير» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب صحيح وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي يَده كِتَابَانِ فَقَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا هَذَانِ الكتابان فَقُلْنَا لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنَا فَقَالَ لِلَّذِي فِي يَدِهِ الْيُمْنَى هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاء آبَائِهِم وقبائلهم ثمَّ أجمل على آخِرهم فَلَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا ثُمَّ قَالَ لِلَّذِي فِي شِمَالِهِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَاء آبَائِهِم وقبائلهم ثمَّ أجمل على آخِرهم فَلَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا فَقَالَ أَصْحَابُهُ فَفِيمَ الْعَمَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كَانَ أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ فَقَالَ سَدِّدُوا وَقَارِبُوا فَإِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّةِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ وَإِنَّ صَاحِبَ النَّارِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ -[36]- ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ فَنَبَذَهُمَا ثُمَّ قَالَ فَرَغَ رَبُّكُمْ مِنَ الْعِبَادِ فريق فِي الْجنَّة وفريق فِي السعير» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيح
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں، آپ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ یہ دو کتابیں کیا ہیں؟“ ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! جب تک آپ نہ بتائیں، ہم نہیں جانتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: ”یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اس میں جنتیوں، ان کے آباء اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر ان کے آخر پر پورا حساب کر دیا گیا ہے لہذا ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ “ پھر آپ نے اپنے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: ”یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے ہے اس میں جہنمیوں، ان کے آباء اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر ان کے آخر پر پورا حساب کر دیا گیا ہے لہذا اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ “ تو آپ کے صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! جب فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر عمل کس لیے کرنا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”میانہ روی سے درست اعمال کرتے رہو، کیونکہ جنتی شخص سے آخری عمل جنتیوں والا کرایا جائے گا، اگرچہ پہلے اس نے کیسے بھی عمل کیے ہوں، اور جہنمی سے آخری عمل جہنمیوں والا کرایا جائے گا، خواہ اس سے پہلے اس نے کیسے بھی عمل کیے ہوں۔ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے وہ کتابیں رکھ کر فرمایا: ”تمہارا رب بندوں (کے معاملے) سے فارغ ہو چکا، پس ایک گروہ جنت میں اور ایک گروہ جہنم میں جائے گا۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2141 وقال: ھذا حديث حسن صحيح غريب.)»
وعن ابي خزامة عن ابيه قال سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله ارايت رقى نسترقيها ودواء نتداوى به وتقاة نتقيها هل ترد من قدر الله شيئا قال: «هي من قدر الله» . رواه احمد والترمذي وابن ماجه وَعَن أبي خزامة عَن أَبِيه قَالَ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا قَالَ: «هِيَ مِنْ قَدَرِ الله» . رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
سیدنا ابوخزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! راہنمائی فرمائیں، دم جس کے ذریعے ہم دم کراتے ہیں، دوائی، جس کے ذریعے ہم علاج کرتے ہیں، اور بچاؤ کی چیزیں (مثلاً ڈھال وغیرہ) جن کے ذریعے ہم بچاؤ کرتے ہیں۔ کیا یہ اللہ کی تقدیر سے کچھ روک سکتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ (اسباب اختیار کرنا) بھی اللہ کی تقدیر میں سے ہیں۔ “ اس حدیث کو احمد ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أحمد (3/ 421 ح 15551. 15554) والترمذي (2065 وقال: ھذا حديث حسن) وابن ماجه (3437) ٭ ابن أبي خزامة مجھول الحال، وثقه الترمذي وحده و لبعض الحديث شواهد، انظر الحديث الآتي (99)»