سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر

سنن دارمي
مقدمہ
11. باب مَا أَكْرَمَ اللَّهُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَلاَمِ الْمَوْتَى:
11. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مُردوں سے بات کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 70
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: لما فتحت خيبر، اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم شاة فيها سم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اجمعوا لي من كان ها هنا من اليهود"، فجمعوا له، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إني سائلكم عن شيء فهل انتم صادقي عنه؟"، قالوا: نعم، يا ابا القاسم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من ابوكم؟"، قالوا: ابونا فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"كذبتم، بل ابوكم فلان"، قالوا: صدقت وبررت، فقال لهم:"هل انتم صادقي عن شيء إن سالتكم عنه؟"، فقالوا: نعم، وإن كذبناك، عرفت كذبنا كما عرفته في آبائنا، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"فمن اهل النار؟"، فقالوا: نكون فيها يسيرا ثم تخلفوننا فيها، قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اخسئوا فيها، والله لا نخلفكم فيها ابدا"، ثم قال لهم:"هل انتم صادقي عن شيء إن سالتكم عنه؟"، قالوا: نعم، قال:"هل جعلتم في هذه الشاة سما؟"، قالوا: نعم، قال:"ما حملكم على ذلك؟"، قالوا: اردنا إن كنت كاذبا ان نستريح منك، وإن كنت نبيا لم يضرك.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرَ، أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اجْمَعُوا لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ الْيَهُودِ"، فَجُمِعُوا لَهُ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْهُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ أَبُوكُمْ؟"، قَالُوا: أَبُونَا فُلَانٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"كَذَبْتُمْ، بَلْ أَبُوكُمْ فُلَانٌ"، قَالُوا: صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ، فَقَالَ لَهُمْ:"هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ؟"، فَقَالُوا: نَعَمْ، وَإِنْ كَذَبْنَاكَ، عَرَفْتَ كَذِبَنَا كَمَا عَرَفْتَهُ فِي آبَائِنَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَمَنْ أَهْلُ النَّارِ؟"، فَقَالُوا: نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثُمَّ تَخْلِفُونَنا فِيهَا، قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"اخْسَئُوا فِيهَا، وَاللَّهِ لَا نَخْلِفُكُمْ فِيهَا أَبَدًا"، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ:"هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:"هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِهِ الشَّاةِ سُمًّا؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:"مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ؟"، قَالُوا: أَرَدْنَا إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا أَنْ نَسْتَرِيحَ مِنْكَ، وَإِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب خیبر فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک زہر آلود بکری ہدیہ کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو میرے پاس جمع کرو، چنانچہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع کئے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں، کیا تم مجھے صحیح صحیح جواب دو گے؟ انہوں نے کہا ہاں اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارا پردادا کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ فلاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے جھوٹ کہا، تمہارا پردادا تو فلاں ہے، اس پر وہ بولے آپ نے سچ اور درست فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: اگر میں تم سے کوئی اور سوال کروں تو کیا تم سچ سچ بتاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں اور اگر ہم جھوٹ بولیں بھی تو آپ ہمارا جھوٹ پکڑ لیں گے، جیسا کہ ابھی پردادا کے بارے میں آپ نے ہمارا جھوٹ پکڑ لیا، آپ نے ان سے پوچھا: دوزخ میں رہنے والے کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: کچھ دن کے لئے تو ہم اس میں رہیں گے پھر آپ لوگ ہماری جگہ لے لیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو گے، واللہ ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی نہ لیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: اگر میں تم سے ایک اور بات پوچھوں تو کیا تم مجھے صحیح بات بتا دو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں (ضرور) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اس کام پر کس (جذبے) نے ابھارا؟ انہوں نے کہا: ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہوں گے تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ سچے نبی ہوں گے تو آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 67 سے 70)
اس حدیث سے یہود کی دروغ گوئی ثابت ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ کہ مذبوحہ بھنی ہوئی بکری اور گوشت نے خبر دے دی کہ مسمومہ (زہریلی) ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم الغیب نہ ہونا ثابت ہوتا ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہوتا تو کیوں تناول فرماتے، اور جیسا کہ یہ پچھلی روایت میں مذکور ہے مرض الموت میں اس کا اثر محسوس فرماتے رہے۔
فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾ [الاعراف: 188]
اگر میں غیب جانتا تو بہت سی بھلائیاں جمع کر لیتا اور مجھ کو کوئی برائی نہ چھو سکتی۔
ایک روایت میں ہے کہ زہر آلود کرنے والی یہودیہ عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بشر بن البراء رضی اللہ عنہ کے قتل کے بدلے قتل کرادیا تھا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو معاف کر دیا تھا، جیسا کہ امام زہری کی روایت میں ہے۔
اگرچہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے، لیکن اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو ہو سکتا ہے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا، لیکن جب سیدنا بشر رضی اللہ عنہ اس کے زہر سے فوت (شہید) ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی عورت کو قصاصاً قتل کر دیا ہو۔
واللہ اعلم

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 70]»
اس حدیث کی یہ سند ضعیف ہے لیکن ہو بہو یہی حدیث [مسند أحمد 451/2] و [صحيح بخاري 5777] میں دوسری سند سے موجود ہے اور اسے بغوی نے [شرح السنة 3807] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 256/4] میں ذکر کیا ہے اس لئے حدیث صحیح ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.