سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان
45. باب في مِيرَاثِ وَلَدِ الزِّنَا:
ولد الزنا کے میراث پانے کا بیان
حدیث نمبر: 3145
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَضَى أَنَّ "كُلَّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ بَعْدَهُ، فَقَضَى إِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ يَطَؤُهَا، فَقَدْ لَحِقَ بِمَنْ اسْتَلْحَقَهُ، وَلَيْسَ لَهُ فِيمَا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنْ الْمِيرَاثِ شَيْءٌ، وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ، فَلَهُ نَصِيبُهُ، وَلَا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَا يَمْلِكُهَا، أَوْ حُرَّةٍ عَاهَرَهَا، فَإِنَّهُ لَا يَلْحَقُ وَلَا يَرِثُ، وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ، فَهُوَ وَلَدُ زِنَا لِأَهْلِ أُمِّهِ مَنْ كَانُوا: حُرَّةً، أَوْ أَمَةً".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: ”جو لڑکا اپنے باپ کے مر جانے کے بعد اس سے ملایا جائے۔“ (یعنی اس مرنے والے کے بعد اس کے وارث دعویٰ کریں کہ یہ ہمارے موروث کا بچہ ہے)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ ”وہ لڑکا اس لونڈی سے ہے جس کا مالک جماع کے وقت اس کا باپ تھا تو اس کا نسب ملانے والے سے مل جائے گا۔ لیکن جو ترکہ اس کے ملائے جانے سے پہلے تقسیم ہو گا اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا، البتہ جو ترکہ تقسیم نہیں ہوا، اس میں اس کا بھی حصہ ہو گا، مگر وہ باپ جس سے اس کا نسب ملایا جاتا ہے اس نے اپنی زندگی میں اس کے نسب کا انکار کیا ہو تو وہ وارثوں کے ملانے سے نہیں ملے گا (یعنی اس کا بچہ نہ مانا جائے گا) اور اگر وہ لڑکا ایسی لونڈی سے ہو جس کا مالک اس کا باپ نہ تھا یا ایسی آزاد عورت سے ہو جس سے اس کے باپ نے زنا کیا تھا تو اس کا نسب کبھی اس مرد سے ثابت نہ ہو گا (گرچہ اس مرد کے وارث اس بچے کو اس سے ملا دیں) اور نہ وہ بچہ اس (زانی) مرد کا وارث ہو گا چاہے اس کے باپ نے اپنی زندگی میں اس کا دعویٰ کیا ہو کہ یہ میرا بچہ ہے، کیوں کہ وہ ولد الزنا ہے اور وہ اپنی ماں کے لوگوں سے مل جائے گا، چاہے وہ آزاد کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو یا لونڈی کے پیٹ سے (آخر ولد الزنا ہے، اور وارث نہ ہو گا، نہ نسب میں شامل ہو گا)۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3154]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2265، 2266]، [ابن ماجه 2746]، [عبدالرزاق 19138]، [البيهقي 260/6]
وضاحت: (تشریح احادیث 3136 سے 3145)
جو بچہ زنا سے پیدا ہو وہ درحقیقت اس مرد سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا جس نے زنا کیا گو اس کا نطفہ ہی سہی۔
اس حدیث کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ زید مر گیا، اس کی ایک لونڈی تھی اس سے ایک بچہ تھا، اب زید کے مرنے کے بعد اس کے کل یا بعض وارثوں نے قبول کیا کہ یہ بچہ زید ہی کا ہے تو وہ بچہ زید کا بچہ قرار پائے گا اور نسب ثابت ہوگا اور بچہ وارث ہوگا، یا زید نے اپنی حیات میں اقرار کیا ہو کہ یہ بچہ میرا ہے تب بھی وہ نسب میں شامل ہو کر وارث ہوگا، لیکن اگر زید نے انکار کر دیا تو نہ وہ وارث ہوگا اور نہ ہی نسب میں شامل ہوگا چاہے کچھ وارثین اس کا اقرار کریں۔
واللہ اعلم۔
دیکھئے: شرح ابن ماجہ، حدیث مذکور للعلامہ وحیدالزماں خاں رحمہ اللہ تعالیٰ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن