(حديث مقطوع) اخبرنا الحسن بن بشر، حدثنا المعافى، عن الاوزاعي، قال: كتب عمر بن عبد العزيز رحمه الله تعالي: "إنه لا راي لاحد في كتاب الله، وإنما راي الائمة فيما لم ينزل فيه كتاب، ولم تمض به سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا راي لاحد في سنة سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ الله تَعالَيَ: "إِنَّهُ لَا رَأْيَ لِأَحَدٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَإِنَّمَا رَأْيُ الْأَئِمَّةِ فِيمَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ كِتَابٌ، وَلَمْ تَمْضِ بِهِ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا رَأْيَ لِأَحَدٍ فِي سُنَّةٍ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں کسی کی رائے (قابل قبول) نہیں اور ائمہ کرام کی رائے بھی اس بارے میں قبول ہو گی جس میں کتاب اللہ یا سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ نہ ملے، اور جس سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا اس میں رائے کی گنجائش نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 446]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 100]، [الشريعة: 59]، [جامع بيان العلم 1307]