(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني خالد هو ابن يزيد، عن سعيد هو ابن ابي هلال، عن نبيه بن وهب، ان كعبا دخل على عائشة، فذكروا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال كعب: "ما من يوم يطلع إلا نزل سبعون الفا من الملائكة، حتى يحفوا بقبر النبي صلى الله عليه وسلم يضربون باجنحتهم، ويصلون على رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا امسوا، عرجوا وهبط مثلهم، فصنعوا مثل ذلك حتى إذا انشقت عنه الارض، خرج في سبعين الفا من الملائكة يزفونه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي خَالِدٌ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ، أَنَّ كَعْبًا دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ كَعْبٌ: "مَا مِنْ يَوْمٍ يَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنْ الْمَلَائِكَةِ، حَتَّى يَحُفُّوا بِقَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْرِبُونَ بِأَجْنِحَتِهِمْ، وَيُصَلُّونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا أَمْسَوْا، عَرَجُوا وَهَبَطَ مِثْلُهُمْ، فَصَنَعُوا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ، خَرَجَ فِي سَبْعِينَ أَلْفًا مِنْ الْمَلَائِكَةِ يَزِفُّونَهُ".
نبیہ بن وھب سے مروی ہے کہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چل نکلا تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہر دن ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں اور اپنے پروں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ڈھانپ لیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھتے رہتے ہیں، پھر جب شام ہو جاتی ہے تو وہ (آسمان پر) چڑھ جاتے ہیں اور انہیں کی طرح دوسرے فرشتے آتے ہیں اور درود پڑھتے ہیں حتی کہ زمین شق ہو گی اور آپ ستر ہزار فرشتوں کو ہٹاتے ہوئے قبر سے نمودار ہوں گے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 94) یہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کا قول ہے، جو نہ مرفوع ہے اور نہ صحیح، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کے لئے احادیثِ صحیحہ کا ذخیرہ موجود ہے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سید الانبیاء والمرسلین ہونا، تمام نبیوں کی امامت کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: الأولى ضعف عبد الله بن صالح فهو سيئ الحفظ جدا وكانت فيه غفلة والانقطاع أيضا فإن نبيه بن وهب لم يدرك كعبا، [مكتبه الشامله نمبر: 95]» اس کی سند میں دو علتیں ہیں، ایک تو راوی عبداللہ بن صالح ضعیف ہے، دوسرے اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس کو سخاوی نے [القول البديع ص: 48] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: الأولى ضعف عبد الله بن صالح فهو سيئ الحفظ جدا وكانت فيه غفلة والانقطاع أيضا فإن نبيه بن وهب لم يدرك كعبا