حدثنا ابن نمير ، حدثنا عبد الملك يعني ابن ابي سليمان ، عن عطية العوفي ، قال: سالت زيد بن ارقم ، فقلت له: إن ختنا لي حدثني عنك بحديث في شان علي رضي الله عنه يوم غدير خم، فانا احب ان اسمعه منك، فقال: إنكم معشر اهل العراق فيكم ما فيكم، فقلت له: ليس عليك مني باس، فقال: نعم، كنا بالجحفة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلينا ظهرا، وهو آخذ بعضد علي رضي الله عنه، فقال:" ايها الناس، الستم تعلمون اني اولى بالمؤمنين من انفسهم؟ قالوا: بلى، قال: فمن كنت مولاه، فعلي مولاه"، قال: فقلت له: هل قال: اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه؟ قال: إنما اخبرك كما سمعت .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ خَتَنًا لِي حَدَّثَنِي عَنْكَ بِحَدِيثٍ فِي شَأْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْكَ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ مَعْشَرَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فِيكُمْ مَا فِيكُمْ، فَقُلْتُ لَهُ: لَيْسَ عَلَيْكَ مِنِّي بَأْسٌ، فَقَالَ: نَعَمْ، كُنَّا بِالْجُحْفَةِ، فَخَرْجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا ظُهْرًا، وَهُوَ آخِذٌ بِعَضُدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ"، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ قَالَ: اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ؟ قَالَ: إِنَّمَا أُخْبِرُكَ كَمَا سَمِعْتُ .
عطیہ عوفی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ میرے ایک دامادنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غدیرخم کے موقع کی حدیث آپ کے حوالے سے میرے سامنے بیان کی ہے، میں چاہتا ہوں کہ براہ راست آپ سے اس کی سماعت کروں؟ انہوں نے فرمایا اے اہل عراق! مجھے تم سے اندیشہ ہے میں نے عرض کیا کہ میری طرف سے آپ بےفکر رہیں انہوں نے کہا اچھا ایک مرتبہ ہم لوگ مقام جحفہ میں تھے کہ ظہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا لوگو! کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیوں نہیں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اے اللہ! جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما؟ انہوں نے فرمایا میں نے جو سنا تھا وہ تمہیں بتادیا۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهد، وهذا إسناد ضعيف لضعف عطية