(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا هارون بن المغيرة، عن عنبسة بن سعيد، عن خالد بن زيد الانصاري، عن عقار بن المغيرة بن شعبة، عن ابيه المغيرة بن شعبة، قال: نشد عمر الناس: اسمع من النبي صلى الله عليه وسلم احد منكم في الجنين؟ فقام المغيرة بن شعبة، فقال: قضى فيه عبدا او امة، فنشد الناس ايضا: فقام المقضي له، فقال:"قضى النبي صلى الله عليه وسلم لي به عبدا او امة"فنشد الناس ايضا: فقام المقضي عليه، فقال: قضى النبي صلى الله عليه وسلم"علي غرة عبدا او امة"، فقلت: اتقضي علي فيه فيما لا اكل، ولا شرب، ولا استهل، ولا نطق؟ ان تطله فهو احق ما يطل"فهم النبي صلى الله عليه وسلم إليه بشيء معه"، فقال: "اشعر؟"، فقال عمر: لولا ما بلغني من قضاء النبي صلى الله عليه وسلم لجعلته دية بين ديتين.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَقَّارِ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: نَشَدَ عُمَرُ النَّاسَ: أَسَمِعَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ مِنْكُمْ فِي الْجَنِينِ؟ فَقَامَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: قَضَى فِيهِ عَبْدًا أَوْ أَمَةً، فَنَشَدَ النَّاسَ أَيْضًا: فَقَامَ الْمَقْضِيُّ لَهُ، فَقَالَ:"قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِي بِهِ عَبْدًا أَوْ أَمَةً"فَنَشَدَ النَّاسَ أَيْضًا: فَقَامَ الْمَقْضِيُّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"عَلَيَّ غُرَّةً عَبْدًا أَوْ أَمَةً"، فَقُلْتُ: أَتَقْضِي عَلَيَّ فِيهِ فِيمَا لَا أَكَلَ، وَلَا شَرِبَ، وَلَا اسْتَهَلَّ، وَلَا نَطَقَ؟ أَنْ تُطِلَّهُ فَهُوَ أَحَقُّ مَا يُطَلُّ"فَهَمَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ مَعَهُ"، فَقَالَ: "أَشِعْرٌ؟"، فَقَالَ عُمَرُ: لَوْلَا مَا بَلَغَنِي مِنْ قَضَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَجَعَلْتُهُ دِيَةً بَيْنَ دِيَتَيْنِ.
عقار بن مغیرہ بن شعبہ نے روایت کیا اپنے والد سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا: تم میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنین کے بارے میں سنا؟ پس سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں غلام یا لونڈی (دیت میں) دینے کا فیصلہ کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر لوگوں سے پوچھا، تو جس کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا وہ کھڑا ہوا اور اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین کے بدلے میں میرے لئے ایک غلام یا لونڈی کا فیصلہ دیا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر لوگوں سے پوچھا، تو جس پر یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا (مقضی علیہ) نے کھڑے ہو کر عرض کیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اوپر جنین کے گرنے پر ایک غلام یا کنیز کا فیصلہ فرمایا، تو میں نے عرض کیا: کیا آپ میرے اوپر ایسے جنین کی دیت کا فیصلہ فرماتے ہیں جس نے نہ کھایا، نہ پیا، نہ رویا، نہ چلایا، یعنی نہ ولادت کے وقت آواز نکالی، نہ بولا، اگر آپ اس کو چھوڑ دیں کہ یہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا دم معاف کیا جائے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی چیز کے ساتھ اس کی طرف جھکے اور فرمایا شعر کہتے ہو؟ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مجھے معلوم نہ ہو جاتا تو میں دو دیتوں کو ایک ہی قرار دے دیتا۔
وضاحت: (تشریح احادیث 660 سے 665) اس روایت سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی رائے سے رجوع کرنا ثابت ہوا۔
تخریج الحدیث: «الحديث صحيح متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 668]» اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہے، لیکن حدیث دیۃ الجنین متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5760، 6904] و [مسلم 1682] و [مسند موصلي 5917] و [صحيح ابن حبان 6018، 6020]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث صحيح متفق عليه