(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا محمد بن بشر، حدثنا عبد الله بن الوليد، عن عمر بن ايوب، عن ابي إياس، قال: كنت نازلا على عمرو بن النعمان فاتاه رسول مصعب بن الزبير حين حضره رمضان بالفي درهم، فقال: إن الامير يقرئك السلام، وقال: إنا لم ندع قارئا شريفا إلا وقد وصل إليه منا معروف، فاستعن بهذين على نفقة شهرك هذا، فقال: اقرئ الامير السلام، وقل له: "إنا والله ما قرانا القرآن نريد به الدنيا ودرهمها".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: كُنْتُ نَازِلًا عَلَى عَمْرِو بْنِ النُّعْمَانِ فَأَتَاهُ رَسُولُ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ حِينَ حَضَرَهُ رَمَضَانُ بِأَلْفَيْ دِرْهَمٍ، فَقَالَ: إِنَّ الْأَمِيرَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَقَالَ: إِنَّا لَمْ نَدَعْ قَارِئًا شَرِيفًا إِلَّا وَقَدْ وَصَلَ إِلَيْهِ مِنَّا مَعْرُوفٌ، فَاسْتَعِنْ بِهَذَيْنِ عَلَى نَفَقَةِ شَهْرِكَ هَذَا، فَقَالَ: أَقْرِئْ الْأَمِيرَ السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: "إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَرَأْنَا الْقُرْآنَ نُرِيدُ بِهِ الدُّنْيَا وَدِرْهَمَهَا".
ابوایاس نے کہا: میں عمرو بن نعمان کے پاس مقیم تھا کہ مصعب بن زبیر کا قاصد رمضان میں دو ہزار درہم لے کر ان کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: امیر (محترم) نے آپ کو سلام کہا ہے اور حکم دیا ہے کہ ہم کسی بھی معزز قاری کو بنا کسی تحفہ تحائف کے نہ چھوڑیں اس لئے یہ دو ہزار اس مہینہ کا خرچ قبول فرمایئے۔ عمرو بن نعمان نے کہا: ان امیر محترم کو میرا سلام کہو، اور ان سے کہدو الله کی قسم ہم نے قرآن (کریم) کو دنیا اور دراہم کی چاہت میں نہیں پڑھا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 598 سے 604) خلوصِ وللّٰہیت کا یہ بہترین نمونہ ہے اور اپنے علم کو مال و دولت کی طمع سے بچا کر محفوظ رکھا جاسکتا ہے، اسی میں عزت ہے، وقار ہے، اور علم کی سربلندی ہے۔
تخریج الحدیث: «محمد بن حميد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 605]» اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہیں، لیکن [مصنف ابن أبى شيبه 10054] میں جید سند سے یہ روایت موجود ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: محمد بن حميد ضعيف