(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن طاوس، قال: قال عمر رضي الله عنه على المنبر: "احرج بالله على رجل سال عما لم يكن، فإن الله قد بين ما هو كائن".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ: "أُحَرِّجُ بِاللَّهِ عَلَى رَجُلٍ سَأَلَ عَمَّا لَمْ يَكُنْ، فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ بَيَّنَ مَا هُوَ كَائِنٌ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر فرمایا: میں اس شخص کو گنہگار سمجھتا ہوں جو فرضی مسئلہ پوچھے کیونکہ جو چیز ظہور پذیر ہونے والی ہے اسے الله تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 123 سے 126) سابقہ آثار جلیل القدر صحابہ کرام کے ہیں اور ان سے فرضی مسائل پوچھنے کی مذمت ظاہر ہوتی ہے۔ اس اثر سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یقین و اعتماد اور فہم و فراست ظاہر ہوتا ہے، جو چیز ظہور پذیر ہونے والی ہے اس کو الله تعالیٰ نے وضاحت سے بیان فرما دیا ہے، اور جس سے خاموشی اختیار کی، وضاحت نہیں کی اس کے بارے میں پوچھا بھی نہ جائے، یہی بات « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ﴾[المائده: 101] » اور حدیث شریف: «دَعُونِيْ مَا تَرَكْتُكُمْ عَلَيْهِ.» سے واضح ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 126]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1807]، [الفقيه والمتفقه 7/2]، [فتح الباري 266/13]