(حديث مرفوع) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يزيد هو ابن عبد الله بن الهاد، عن عمرو بن ابي عمرو، عن انس بن مالك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إني لاول الناس تنشق الارض عن جمجمتي يوم القيامة ولا فخر، واعطى لواء الحمد ولا فخر، وانا سيد الناس يوم القيامة ولا فخر، وانا اول من يدخل الجنة يوم القيامة ولا فخر، وآتي باب الجنة فآخذ بحلقتها فيقولون: من هذا؟، فاقول انا محمد، فيفتحون لي فادخل فاجد الجبار مستقبلي، فاسجد له، فيقول: ارفع راسك يا محمد وتكلم، يسمع منك، وقل، يقبل منك، واشفع تشفع، فارفع راسي، فاقول: امتي امتي يا رب، فيقول: اذهب إلى امتك، فمن وجدت في قلبه مثقال حبة من شعير من الإيمان، فادخله الجنة، فاذهب، فمن وجدت في قلبه مثقال ذلك ادخلتهم الجنة، فاجد الجبار مستقبلي فاسجد له، فيقول: ارفع راسك يا محمد وتكلم، يسمع منك، وقل: يقبل منك، واشفع تشفع، فارفع راسي فاقول: امتي امتي يا رب، فيقول: اذهب إلى امتك، فمن وجدت في قلبه مثقال حبة من خردل من الإيمان فادخله الجنة، فاذهب، فمن وجدت في قلبه مثقال ذلك ادخلتهم الجنة، وفرغ من حساب الناس وادخل من بقي من امتي في النار مع اهل النار، فيقول اهل النار: ما اغنى عنكم انكم كنتم تعبدون الله ولا تشركون به شيئا، فيقول الجبار: فبعزتي لاعتقنهم من النار، فيرسل إليهم، فيخرجون من النار وقد امتحشوا، فيدخلون في نهر الحياة، فينبتون فيه كما تنبت الحبة في غثاء السيل ويكتب بين اعينهم هؤلاء عتقاء الله، فيذهب بهم فيدخلون الجنة، فيقول لهم اهل الجنة: هؤلاء الجهنميون، فيقول الجبار: بل هؤلاء عتقاء الجبار".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنِّي لَأَوَّلُ النَّاسِ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْ جُمْجُمَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرُ، وَأُعْطَى لِوَاءَ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرُ، وَأَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرُ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرُ، وَآتِي بَابَ الْجَنَّةِ فَآخُذُ بِحَلْقَتِهَا فَيَقُولُونَ: مَنْ هَذَا؟، فَأَقُولُ أَنَا مُحَمَّدٌ، فَيَفْتَحُونَ لِي فَأَدْخُلُ فَأَجِدُ الْجَبَّارَ مُسْتَقْبِلِي، فَأَسْجُدُ لَهُ، فَيَقُولُ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ وَتَكَلَّمْ، يُسْمَعْ مِنْكَ، وَقُلْ، يُقْبَلْ مِنْكَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبّ، فَيَقُولُ: اذْهَبْ إِلَى أُمَّتِكَ، فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ شَعِيرٍ مِنْ الْإِيمَانِ، فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ، فَأَذْهَبُ، فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَلِكَ أَدْخَلْتُهُمْ الْجَنَّةَ، فَأَجِدُ الْجَبَّارَ مُسْتَقْبِلِي فَأَسْجُدُ لَهُ، فَيَقُولُ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ وَتَكَلَّمْ، يُسْمَعْ مِنْكَ، وَقُلْ: يُقْبَلْ مِنْكَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ: أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: اذْهَبْ إِلَى أُمَّتِكَ، فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ الْإِيمَانِ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ، فَأَذْهَبُ، فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَلِكَ أَدْخَلْتُهُمْ الْجَنَّةَ، وَفُرِغَ مِنْ حِسَابِ النَّاسِ وَأُدْخِلَ مَنْ بَقِيَ مِنْ أُمَّتِي فِي النَّارِ مَعَ أَهْلِ النَّارِ، فَيَقُولُ أَهْلُ النَّارِ: مَا أَغْنَى عَنْكُمْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُونَ بِهِ شَيْئًا، فَيَقُولُ الْجَبَّارُ: فَبِعِزَّتِي لَأَعْتِقَنَّهُمْ مِنْ النَّارِ، فَيُرْسِلُ إِلَيْهِمْ، فَيَخْرُجُونَ مِنْ النَّارِ وَقَدْ امْتُحِشُوا، فَيُدْخَلُونَ فِي نَهَرِ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ فِيهِ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي غُثَاءِ السَّيْلِ وَيُكْتَبُ بَيْنَ أَعْيُنِهِمْ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللَّهِ، فَيُذْهَبُ بِهِمْ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ: هَؤُلَاءِ الْجَهَنَّمِيُّونَ، فَيَقُولُ الْجَبَّار: بَلْ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الْجَبَّارِ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ فرماتے تھے: ”میں وہ سب سے پہلا شخص ہوں کہ میرے سر سے قیامت کے دن زمین شق ہو گی اور کچھ فخر نہیں، مجھے حمد باری تعالیٰ کا جھنڈا عطا کیا جائے گا اور کچھ فخر نہیں، میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں اس میں بھی کوئی فخر نہیں، اور قیامت کے دن سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا بھی میں ہی ہوں اور کچھ فخر نہیں، میں جنت کے دروازے کے پاس آ کر اس کے کُنڈے بجاؤں گا تو وہ کہیں گے یہ کون ہے؟ میں جواب دوں گا کہ میں محمد ہوں وہ میرے لئے دروازے کھول دیں گے تو میں اپنے سامنے جبار (قہر و غضب والا) کو پاؤں گا۔ میں سجدے میں گر جاؤں گا (رب ذوالجلال) فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھایئے اور گفتگو کیجئے، آپ کی بات سنی جائے گی، آپ مانگئے مراد پوری کی جائے گی، شفاعت کیجئے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: میری امت اے میرے پروردگار! ارشاد ہوگا اپنی امت کے پاس جائیے جس کے دل میں بھی جو کے دانے برابر بھی ایمان ہو اس کو جنت میں داخل کر دیجئے۔ میں جاؤں گا اور جس کے دل میں بھی اتنا ایمان پاؤں گا اسے جنت میں داخل کرا دوں گا، سامنے میرے (میرا رب) جبار ہو گا میں اسے سجدہ کروں گا، ارشاد ہو گا: اے محمد سر اٹھائیے اور بات کیجئے، سنی جائے گی، آپ جو مانگیں گے دیا جائے گا، شفاعت کریں گے قبول کی جائے گی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: اے رب! میری امت، میری امت، ارشاد ہو گا جاؤ اپنی امت کے پاس اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہو اسے جنت میں داخل کر دو، میں امت کے پاس آؤں گا اور جس کے دل میں رائی کے دانے بھر بھی ایمان پاؤں گا اسے جنت میں داخل کرا دوں گا، اس وقت تک حساب کتاب سے فراغت ہو چکی ہو گی اور میری امت میں سے جو باقی بچے ہوں گے جہنم میں داخل کر دیئے جائیں گے، دوزخ والے کہیں گے تم سے زیادہ کوئی غنی نہیں، تم اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک و ساجھی بھی نہیں بناتے تھے، زبردست تسلط والا (جبار) فرمائے گا: میری عزت کی قسم میں انہیں جہنم سے آزاد کر دوں گا، چنانچہ وہ بھی دوزخ سے نکال لئے جائیں گے اور ان کے چہرے جھلسے ہوئے ہوں گے، وہ سب نہر حياة میں ڈالے جائیں گے اور وہ اس میں سے ایسے اگیں گے جیسے پانی کے خس و خاشاک میں سے (سبزہ) اُگتا ہے، اور ان کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ کے آزاد کردہ لوگ ہیں، پھر ان کو لے جا کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا، ان سے اہل جنت کہیں گے یہ جہنمی لوگ ہیں، جبار فرمائے گا (نہیں) یہ جبار کے آزاد کردہ ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح فهو صدوق ولكنه كثير الخطأ وكانت فيه غفلة، [مكتبه الشامله نمبر: 53]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اسے [امام أحمد 144/3]، [ابن منده 877] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 479/5] میں ذکر کیا ہے۔ امام احمد نے صحیح سند سے بھی اسے [مسند 145/3] میں ذکر کیا ہے لہٰذا اس کا معنی صحیح ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح فهو صدوق ولكنه كثير الخطأ وكانت فيه غفلة
أول الناس تنشق الأرض عن جمجمتي يوم القيامة ولا فخر وأعطى لواء الحمد ولا فخر وأنا سيد الناس يوم القيامة ولا فخر وأنا أول من يدخل الجنة يوم القيامة ولا فخر وآتي باب الجنة فآخذ بحلقتها فيقولون من هذا فأقول أنا محمد فيفتحون لي فأدخل فأجد الجبار مس
أنا أولهم خروجا وأنا قائدهم إذا وفدوا وأنا خطيبهم إذا أنصتوا وأنا مستشفعهم إذا حبسوا وأنا مبشرهم إذا أيسوا الكرامة والمفاتيح يومئذ بيدي وأنا أكرم ولد آدم على ربي يطوف علي ألف خادم كأنهم بيض مكنون أو لؤلؤ منثور