(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا سفيان بن حسين ، عن الزهري ، عن محمود بن الربيع ، او الربيع بن محمود شك يزيد، عن عتبان بن مالك ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: إني رجل ضرير البصر، وبيني وبينك هذا الوادي والظلمة، وسالته ان ياتي فيصلي في بيتي، فاتخذ مصلاه مصلى، فوعدني ان يفعل، فجاء هو وابو بكر، وعمر، فتسامعت به الانصار، فاتوه، وتخلف رجل منهم، يقال له: مالك بن الدخشن، وكان يزن بالنفاق، فاحتبسوا على طعام، فتذاكروا بينهم، فقالوا: ما تخلف عنا وقد علم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم زارنا إلا لنفاقه، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، فلما انصرف، قال:" ويحه، اما شهد ان لا إله إلا الله بها مخلصا، فإن الله عز وجل حرم النار على من شهد بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، أَوْ الرَّبِيعِ بْنِ مَحْمُودٍ شَكَّ يَزِيدُ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي رَجُلٌ ضَرِيرُ الْبَصَرِ، وَبَيْنِي وَبَيْنَكَ هَذَا الْوَادِي وَالظُّلْمَةُ، وَسَأَلْتُهُ أَنْ يَأْتِيَ فَيُصَلِّيَ فِي بَيْتِي، فَأَتَّخِذُ مُصَلَّاهُ مُصَلًّى، فَوَعَدَنِي أَنْ يَفْعَلَ، فَجَاءَ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَتَسَامَعَتْ بِهِ الْأَنْصَارُ، فَأَتَوْهُ، وَتَخَلَّفَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ، وَكَانَ يُزَنُّ بِالنِّفَاقِ، فَاحُتَبَسُوا عَلَى طَعَامٍ، فَتَذَاكَرُوا بَيْنَهُمْ، فَقَالُوا: مَا تَخَلَّفَ عَنَّا وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَارَنَا إِلَّا لِنِفَاقِهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" وَيْحَهُ، أَمَا شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ بِهَا مُخْلِصًا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ النَّارَ عَلَى مَنْ شَهِدَ بِهَا".
سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: کہ میری نظر کمزور ہے اور میرے اور آپ کے درمیان یہ وادی اور ظلمت بھی حائل ہے، آپ کسی وقت تشریف لا کر میرے گھر میں نماز پڑھ دیں تو میں اسے ہی اپنے لئے جائے نماز منتخب کر لوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا، چنانچہ ایک دن سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، انصار کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے آنے لگے، لیکن ایک آدمی " جس کا نام مالک بن وخش تھا " آنے سے رہ گیا اور لوگ اس پر نفاق کا طعنہ اور الزام پہلے ہی سے لگاتے تھے۔ لوگ کھانے کے وقت تک رکے رہے اور آپس میں باتیں کرنے لگے، باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے کہ اسے پتہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں لیکن وہ محض اپنے نفاق کی وجہ سے ہی پیچھے رہ گیا ہے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، نماز سے فارغ ہو کر فرمانے لگے افسوس! کیا وہ خلوص جل کے ساتھ " لا الہ اللہ " کی گواہی نہیں دیتا؟ جو شخص اس کلمے کی گواہی دیتا ہے، اللہ نے اس پر جہنم کی آگ حرام قرار دے دی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف بهذه السياقة، سفيان بن حسين ضعيف الحديث عن الزهري