جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے |
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے 2163. (422) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى صِحَّةِ هَذَا الْمَتْنِ، اس حدیث کے متن کے صحیح ہونے کی دلیل کا بیان۔
اور اس بات کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ سے پہلے بھی حج کیا تھا۔ اس عالم دین کے موقف کے برخلاف جس نے اس حدیث کی صحت میں تنقید کی ہے اور دعوٰی کیا ہے کہ اس حدیث کو صرف زید بن حباب ہی بیان کرتا ہے۔ (اور وہ امام ثوری سے روایت کرنے میں ضعیف ہے)
تخریج الحدیث:
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ پر وہی نازل ہونے سے پہلے دیکھا کہ آپ لوگوں کے ساتھ میدان عرفات میں اپنے اونٹ پر سوار کھڑے تھے۔ آپ اُن کے ساتھ ہی میدان عرفات سے واپس ہوئے تھے۔ اور آپ کا یہ کا م خالص الله تعالیٰ کی توفیق سے تھا (کیونکہ قریش خود کو دین کا علمبر دار سمجھتے ہوئے حدودحرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔) امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ان کا یہ قول آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے۔ ممکن ہے اس سے مراد اس آیت کے نزول سے پہلے ہو «ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ» [ سورة البقرة: 199 ] ”پھر تم بھی وہیں سے واپس لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ مکمّل قرآن مجید کے نازل ہونے (اور آپ کے مبعوث ہونے) سے پہلے میں نے آپ کو میدان عرفات میں دیکھا ہے۔ اور اس تاویل کے درست ہونے کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ قریش والے اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ ہی میں رُک جاتے تھے اور وہ حمس (دین میں بہت پختہ اور سخت لوگ کہلاتے تھے۔) جبکہ باقی سارے عرب لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے۔ پھر جب اسلام کا دور آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو میدان عرفات میں جانے اور وہاں ٹھہرنے کا حُکم دیا تو آپ میدان عرفات میں ٹھہرے پھر وہاں سے واپس مزدلفہ روانہ ہوئے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس حُکم کی وجہ سے تھا «ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ» [ سورة البقرة: 199 ] ”پھر تم بھی وہیں سے واپس لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عرفات میں ٹھہرنے کا حُکم دیا کہ آپ قریش کے مزدلفہ میں ٹھہرنے اور حرم کی حدود سے باہر نہ نکلنے کی مخالفت کریں کیونکہ وہ خود کوحمس (دین کے علمبر دار) کہلواتے تھے۔ اس آیت کے ذریعہ حُکم دیا «ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ» [ سورة البقرة: 199 ] ”پھر تم بھی وہیں سے واپس لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ اور یہ الفاظ بھی اس قسم سے ہیں جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ ”الناس“ کا اطلاق کچھ لوگوں پر بھی ہو جاتا ہے کیونکہ یقینی بات ہے کہ سارے لوگ میدان عرفات میں نہیں ٹھہرتے تھے بلکہ کچھ لوگ (قریش کے علاوہ) وہاں ٹھہرتے تھے سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ کا یہ قول اور یہ کام آپ نے اللہ کی توفیق سے کیا تھا۔ اس میں دلیل ہے کہ اُس وقت تک اللہ تعالیٰ نے آپ پر وہی نازل کرکے آپ کو وقوف عرفات کا حُکم نہیں دیا تھا۔ کیونکہ اگر سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے نزدیک آپ کا عرفات میں ٹھہرنا اللہ تعالیٰ کے حُکم سے ہوتا تو وہ یہ الفاظ کہتے کہ مجھے بخوبی علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عرفات میں ٹھہرنے کا حُکم دیا ہے۔ اور میں نے یہ بات کی ہے ہوسکتا ہے کہ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ کی مراد یہ ہو کہ سارا قرآن نازل ہونے سے پہلے میں نے آپ کو عرفات میں کھڑے دیکھا۔ کیونکہ سارا قرآن آپ پر ہجرت مدینہ سے قبل مکّہ مکرّمہ میں نازل نہیں ہوا بلکہ کچھ قرآن ہجرت مدینہ سے پہلے مکّہ مکرّمہ میں نازل ہوا ہے اور کچھ مدینہ منوّرہ میں نازل ہوا ہے۔ اور میں نے اس کے اس قول سے یہ مراد لی ہے کہ سارا قرآن نازل ہونے سے پہلے کا یہ واقعہ ہے ان کی مراد یہ نہیں کہ آپ پر قرآن کی پہلی وحی سے بھی پہلے کا یہ واقعہ ہے۔ اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرفہ والے دن میرا ایک اونٹ گم ہو گیا تو میں میدان عرفات میں اس کی تلاش میں تھا تو اچانک میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اونٹ پر عرفہ کی شام میدان عرفات میں لوگوں کے ساتھ ٹھہرے ہوئے دیکھا، اور یہ واقعہ آپ پر وحی کے نزول کے بعد کا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، اگر عبد العزیز بن جریج نے سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کو پایا ہو تو یہ روایت بیان کرتی ہے کہ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی روایت کی صحیح تاویل یہ ہے کہ یہ واقعہ آپ پر سارا قرآن نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔
تخریج الحدیث:
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے ایک اونٹ کو تلاش کرنے کے لئے عرفات گیا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے ساتھ میدان عرفات میں ٹھہرے ہوئے دیکھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ الله کی قسم، بیشک آپ تو حمس (قریش) میں سے ہیں پھر آپ عرفات میں کیوں ٹھہرے ہوئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سال بھی عرفات میں وہیں کھڑے تھے جہاں آپ پہلے کھڑے ہوتے تھے۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ (قریشی ہونے کے باوجود) حدود حرم سے باہر کیوں گئے ہیں۔ جبکہ قریش حدود حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ والے لوگ ہیں، ہم حرم کی حدود سے نہیں نکلیں گے۔ لیکن یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ آپ اسی جگہ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے جہاں آپ پہلے ٹھہرا کرتے تھے۔ جناب ربیعہ بن عباد کی روایت بھی اس باب کے متعلق ہے۔
تخریج الحدیث:
ربیعہ بن عباد اپنے والد کے واسطے سے ایک قریشی آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہلیت میں دیکھا کہ آپ میدان عرفات میں مشرکین کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ پھر میں نے اسلامی دور میں بھی اسی جگہ ٹھہرے ہوئے دیکھا۔ تو میں جان گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کام کی توفیق دی تھی۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
|
https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com
No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.