جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے |
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے 2055. (314) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ لَا حَظْرَ فِي إِخْبَارِ جَابِرٍ: نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ أَنْ لَا تُجْزِئُ الْبَدَنَةُ عَنْ أَكْثَرِ مِنْ سَبْعَةٍ. اس بات کی دلیل کا بیان کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی اس روایت ”ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات افراد کی طرف سے ایک اونٹ نحرکیا“ میں ایک اونٹ کی قربانی میں سات سے زیادہ افراد کی شرکت کی ممانعت نہیں ہے۔
یہ مسئلہ اسی قسم سے ہے جسے میں اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر ذکر کر چکا ہوں کہ عرب لوگ کبھی کسی چیز کا ایک عدد ذکر کرتے ہیں لیکن اس عدد سے زائد کی نفی مراد نہیں لیتے۔
تخریج الحدیث:
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے حدیبیہ والے سال بیت اللہ شریف کی زیارت (عمرے) کے لئے نکلے، آپ کا جنگ کرنے کا ارادہ نہیں تھا، آپ نے اپنے ساتھ ستّر اونٹ قربانی کے لئے لے لیے اور لوگوں کی تعداد سات سو تھی، اس طرح ہر اونٹ دس افراد کی طرف سے ایک اونٹ قربانی تھی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ہم حدیبیہ میں شریک ہونے والے صحابہ کی تعداد چودہ سو تھی۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور جناب مروان رحمه الله سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ والے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کرام کے ساتھ نکلے جب آپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو آپ نے اپنی قربانی کو ہار پہنایا اور اشعار کیا۔ اور وہاں سے عمرے کا احرام باندھا۔ پھر بقیہ حدیث ذکر کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب محمد بن اسحاق کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستّر اونٹ قربانی کے لئے اپنے ساتھ لئے تھے اور صحابہ کرام کی تعداد سات سو تھی اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ آپ نے سات سو افراد کی طرف سے ستّر اونٹ نحر کیے تھے۔ یہ مراد نہیں کہ صلح حدیبیہ میں شریک ہونے والے تمام صحابہ کرام کی تعداد سات سو تھی، یہ مسئلہ اسی جنس سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ لفظ الناس بول کر بعض افراد مراد لئے جاتے ہیں، اس سے تمام لوگ مراد نہیں ہوتے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے «الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ» [ سورة آل عمران: 173 ] ”ان سے لوگوں نے کہا تھا کہ تمھارے خلاف ایک بڑی فوج جمع ہوئی ہے۔“ اب یہ بات یقینی ہے کہ سب کافروں نے یہ بات نہیں کہی تھی اور نہ سب لوگ ان کے خلاف جمع ہوئے تھے۔ (حالانکہ دونوں جگہ لفظ الناس استعمال ہوا ہے) اسی طرح یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے «ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ» [ سورة البقرة: 199 ] ”اور تم بھی وہاں سے واپس لوٹو جہاں سے لوگ واپس لوٹتے ہیں۔“ یہ بات بھی حتمی اور یقینی ہے کہ سب لوگ عرفات سے واپس نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے الله تعالیٰ نے افاض الناس سے مراد کچھ لوگ لئے ہیں سارے لوگ مراد نہیں ہیں یہ مسئلہ بڑا طویل ہے جسے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ جناب سفیان بن عیینہ کی روایت اس تاویل کے صحیح ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ اس میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ صحابہ کرام کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ اس طرح انہوں نے بیان کردیا کہ اہل حدیبیہ کی تعداد تیرہ سو سے زیادہ تھی کیونکہ بضع کا لفظ تین سے دس تک بولا جاتا ہے (اور ابن عیینہ نے ایک ہزار اور بضع تعداد بتائی ہے) جس میں ہے کہ حدیبیہ میں صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی۔ اور یہ روایت اس روایت کے مشابہ ہے جس میں ہے کہ حدیبیہ میں صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی۔ اور یہ روایت بھی صراحت کرتی ہے کہ صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن اسحاق کی روایت میں مذکورہ یہ الفاظ کہ صحابہ کرام کی تعداد سات سو تھی ‘ اس سے مراد کچھ صحابہ کرام ہیں جو حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، یہ ان کی کل تعداد نہیں ہے اس تاویل اور ان دلائل کی بنیاد پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ نے کچھ صحابہ کرام کی طرف سے ایک اونٹ دس افراد کی طرف سے قربان کیا اور کچھ صحابہ کرام سات افراد ایک اونٹ یا ایک گائے کی قربانی میں شریک ہوئے۔ اس لئے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ ہم نے اونٹ کی قربانی میں سات افراد نے شرکت کی اور گائے کی قربانی میں بھی سات افراد شریک ہوئے۔‘ اس سے ان کی مراد کچھ اہل حدیبیہ ہیں سب لوگ مراد نہیں۔ اور سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور جناب مروان رحمه الله کی روایت میں ہے اونٹ کی قربانی میں دس افراد شریک ہوئے یعنی چودہ سو صحابہ میں سے سات سو صحابہ نے ستّر اونٹوں میں دس دس کے حساب سے شرکت کی، یہ تعداد حدیبیہ میں شریک ہونے والے صحابہ کی نصف تعداد ہے کل تعداد نہیں۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں شریک تھے تو عیدالضحیٰ آگئی، پس ہم نے گائے کی قربانی میں سات افراد اور اونٹ کی قربانی میں دس افراد نے شرکت کی۔
تخریج الحدیث: اسناده حسن
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کے بعد یہ الفاظ آئے ہیں، آپ سے سوال کیا گیا کہ کون سا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو زیادہ قیمتی ہو اور اپنے مالکوں کے نزدیک زیادہ عمدہ ہو۔“ اس روایت کے بعد فرمایا: ”ہر وہ چیز جس کے جانے سے انسان کو زیادہ تکلیف ہو اگر وہ چیز الله کی راہ میں خرچ کی جائے تو اس کا اجر وثواب بھی بہت زیادہ ہوگا۔“
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
|
https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com
No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.