ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
والبيان ان النبي صلى الله عليه وسلم قد حج قبل هجرته إلى المدينة لا كما من طعن في هذا الخبر، وادعى ان هذا الخبر لم يروه غير زيد بن الحباب وَالْبَيَانُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حَجَّ قَبْلَ هِجْرَتِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ لَا كَمَا مَنْ طَعَنَ فِي هَذَا الْخَبَرِ، وَادَّعَى أَنَّ هَذَا الْخَبَرَ لَمْ يَرْوِهِ غَيْرُ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ
اور اس بات کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ سے پہلے بھی حج کیا تھا۔ اس عالم دین کے موقف کے برخلاف جس نے اس حدیث کی صحت میں تنقید کی ہے اور دعوٰی کیا ہے کہ اس حدیث کو صرف زید بن حباب ہی بیان کرتا ہے۔ (اور وہ امام ثوری سے روایت کرنے میں ضعیف ہے)
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ پر وہی نازل ہونے سے پہلے دیکھا کہ آپ لوگوں کے ساتھ میدان عرفات میں اپنے اونٹ پر سوار کھڑے تھے۔ آپ اُن کے ساتھ ہی میدان عرفات سے واپس ہوئے تھے۔ اور آپ کا یہ کا م خالص الله تعالیٰ کی توفیق سے تھا (کیونکہ قریش خود کو دین کا علمبر دار سمجھتے ہوئے حدودحرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔) امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ان کا یہ قول آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے۔ ممکن ہے اس سے مراد اس آیت کے نزول سے پہلے ہو «ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ» [ سورة البقرة: 199 ]”پھر تم بھی وہیں سے واپس لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ مکمّل قرآن مجید کے نازل ہونے (اور آپ کے مبعوث ہونے) سے پہلے میں نے آپ کو میدان عرفات میں دیکھا ہے۔ اور اس تاویل کے درست ہونے کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔