صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2163. (422) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى صِحَّةِ هَذَا الْمَتْنِ،
اس حدیث کے متن کے صحیح ہونے کی دلیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3058
أَنَّ سَلْمَ بْنَ جُنَادَةَ، حَدَّثَنَا قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَتْ قُرَيْشٌ، وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَكَانُوا يُسَمَّوْنَ الْحُمْسَ، وَكَانَ سَائِرُ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ، فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلامُ أَمَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ فَيَقِفَ، ثُمَّ يُفِيضُ مِنْهَا، قَالَتْ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199، فَهَذَا الْخَبَرُ دَالٌ عَلَى أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّمَا أَمَرَ نَبِيَّهُ بِالْوُقُوفِ بِعَرَفَاتٍ، وَمُخَالَفَةِ قُرَيْشٍ فِي وُقُوفِهِمْ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَتَرْكِهُمُ الْخُرُوجَ مِنَ الْحَرَمِ لِتَسْمِيَتِهِمْ أَنْفُسَهُمُ الْحُمْسَ لِهَذِهِ الآيَةِ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199، أَيْ غَيْرُ قُرَيْشٍ الَّذِينَ كَانُوا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَهَذِهِ اللَّفْظَةُ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّ اسْمَ النَّاسِ قَدْ يَقَعُ عَلَى بَعْضِهِمْ إِذِ الْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ جَمِيعَ النَّاسِ لَمْ يَقِفُوا بِعَرَفَاتٍ، وَإِنَّمَا وَقَفَ بِعَرَفَاتٍ بَعْضُهُمْ لا جَمِيعُهُمْ، وَفِي قَوْلِ جُبَيْرٍ: مَا كَانَ إِلا تَوْفِيقًا مِنَ اللَّهِ لَهُ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ أَمَرَهُ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ بِوَحْيٍ مُنَزَّلٍ عَلَيْهِ بِالْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ، إِذْ لَوْ كَانَ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ كَانَ اللَّهُ قَدْ أَمَرَهُ بِالْوَقْفِ بِعَرَفَةَ عِنْدَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ لأَشْبَهَ أَنْ يَقُولَ: فَعَلِمْتُ أَنَّ اللَّهَ أَمَرَهُ بِذَلِكَ، وَإِنَّمَا قُلْتُ إِنَّهُ جَائِزٌ أَنْ يَكُونَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ أَرَادَ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ عَلَيْهِ أَيْ جَمِيعُ الْقُرْآنِ، لأَنَّ جَمِيعَ الْقُرْآنِ لَمْ يَنْزِلْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ قَبْلَ هِجْرَتِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَإِنَّمَا نَزَلَ عَلَيْهِ بَعْضُ الْقُرْآنِ بِمَكَّةَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ بِالْمَدِينَةِ بَعْدَ الْهِجْرَةِ، وَاسْتَدْلَلْتُ بِأَنَّهُ أَرَادَ بِقَوْلِهِ: قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ، جَمِيعَ الْقُرْآنِ لا أَنَّهُ أَرَادَ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ عَلَيْهِ شَيْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ قریش والے اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ ہی میں رُک جاتے تھے اور وہ حمس (دین میں بہت پختہ اور سخت لوگ کہلاتے تھے۔) جبکہ باقی سارے عرب لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے۔ پھر جب اسلام کا دور آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو میدان عرفات میں جانے اور وہاں ٹھہرنے کا حُکم دیا تو آپ میدان عرفات میں ٹھہرے پھر وہاں سے واپس مزدلفہ روانہ ہوئے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس حُکم کی وجہ سے تھا «ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ» [ سورة البقرة: 199 ] ”پھر تم بھی وہیں سے واپس لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عرفات میں ٹھہرنے کا حُکم دیا کہ آپ قریش کے مزدلفہ میں ٹھہرنے اور حرم کی حدود سے باہر نہ نکلنے کی مخالفت کریں کیونکہ وہ خود کوحمس (دین کے علمبر دار) کہلواتے تھے۔ اس آیت کے ذریعہ حُکم دیا «ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ» [ سورة البقرة: 199 ] ”پھر تم بھی وہیں سے واپس لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ اور یہ الفاظ بھی اس قسم سے ہیں جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ ”الناس“ کا اطلاق کچھ لوگوں پر بھی ہو جاتا ہے کیونکہ یقینی بات ہے کہ سارے لوگ میدان عرفات میں نہیں ٹھہرتے تھے بلکہ کچھ لوگ (قریش کے علاوہ) وہاں ٹھہرتے تھے سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ کا یہ قول اور یہ کام آپ نے اللہ کی توفیق سے کیا تھا۔ اس میں دلیل ہے کہ اُس وقت تک اللہ تعالیٰ نے آپ پر وہی نازل کرکے آپ کو وقوف عرفات کا حُکم نہیں دیا تھا۔ کیونکہ اگر سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے نزدیک آپ کا عرفات میں ٹھہرنا اللہ تعالیٰ کے حُکم سے ہوتا تو وہ یہ الفاظ کہتے کہ مجھے بخوبی علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عرفات میں ٹھہرنے کا حُکم دیا ہے۔ اور میں نے یہ بات کی ہے ہوسکتا ہے کہ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ کی مراد یہ ہو کہ سارا قرآن نازل ہونے سے پہلے میں نے آپ کو عرفات میں کھڑے دیکھا۔ کیونکہ سارا قرآن آپ پر ہجرت مدینہ سے قبل مکّہ مکرّمہ میں نازل نہیں ہوا بلکہ کچھ قرآن ہجرت مدینہ سے پہلے مکّہ مکرّمہ میں نازل ہوا ہے اور کچھ مدینہ منوّرہ میں نازل ہوا ہے۔ اور میں نے اس کے اس قول سے یہ مراد لی ہے کہ سارا قرآن نازل ہونے سے پہلے کا یہ واقعہ ہے ان کی مراد یہ نہیں کہ آپ پر قرآن کی پہلی وحی سے بھی پہلے کا یہ واقعہ ہے۔ اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري