ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
حدثنا بندار ، حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا جعفر ، حدثني ابي ، قال: اتيت جابر بن عبد الله، وحدثنا عبد الجبار بن العلاء ، والزعفراني ، قال: حدثنا سفيان ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جابر ، قال:" امر رسول الله صلى الله عليه وسلم من كل جزور ببضعة، فجعلت في قدر فطبخت، واكلوا من اللحم، وحسوا من المرق" ، هذا للحسن الزعفراني، قال ابو بكر: سال سائل عن الاكل من الهدي الواجب اياكل صاحبها منها؟ فقلت: إذا نحر القارن والمتمتع بدنة، او بقرة، او شركا في بدنة او بقرة اكثر من سبعها، فله ان ياكل مما زاد على سبع البدنة او البقرة، لان الواجب عليه في هدي القران والمتمتع سبع إحداهما، إلا عند من يجيز البدنة عن عشرة على ما بينت في خبر المسور، ومروان، وخبر عكرمة، عن ابن عباس، او شاة تامة فما زاد على سبع بدنة او بقرة، فهو متطوع به، وله ان ياكل مما هو متطوع به من الزيادة، كما يضحي متطوعا بالاضحية، فله ان ياكل من ضحيته، وعلى هذا المعنى علمي اكل النبي صلى الله عليه وسلم من لحوم بدنه، لانه نحر مائة بدنة، وإنما كان الواجب عليه إن كان قارنا سبع بدنة إلا عند من يجيز البدنة عن عشرة لا اكثر، وهو متطوع بالزيادة فجعل من كل بعير بضعة في قدر فحسا من المرق، واكل من اللحم، وإن ذبح لتمتعه او لقرانه لم يكن عندي ان ياكل منها، والعلم عندي كالمحيط ان كل من وجب عليه في ماله شيء لسبب من الاسباب لم يجز له ان ينتفع بما وجب عليه في ماله ولا معنى لقول قائل إن قال: يجب عليه هدي، وله ان ياكل او بعضه، لان المرء إنما له ان ياكل مال نفسه، او مال غيره بإذن مالكه، فإن كان الهدي واجبا عليه، فمحال ان يقال واجب عليه، وهو مال له ياكله، وقول هذه المقالة يوجب ان المرء إذا وجبت عليه صدقة في ماشيته ان له ان يذبحها، فياكلها، وإن وجبت عليه عشر حب فله ان يطحنه، وياكله، وإن وجب عليه عشر ثمار فله ان ياكله، وهذا لا يقوله من يحسن الفقهحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، وَالزَّعْفَرَانِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ:" أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كُلِّ جَزُورٍ بِبَضْعَةٍ، فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ، وَأَكَلُوا مِنَ اللَّحْمِ، وَحَسَوْا مِنَ الْمَرَقِ" ، هَذَا لِلْحَسَنِ الزَّعْفَرَانِيِّ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَأَلَ سَائِلٌ عَنِ الأَكْلِ مِنَ الْهَدْيِ الْوَاجِبِ أَيَأْكُلُ صَاحِبُهَا مِنْهَا؟ فَقُلْتُ: إِذَا نَحَرَ الْقَارِنُ وَالْمُتَمَتِّعُ بَدَنَةً، أَوْ بَقَرَةً، أَوْ شِرْكًا فِي بَدَنَةٍ أَوْ بَقَرَةٍ أَكْثَرُ مِنْ سُبْعِهَا، فَلَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِمَّا زَادَ عَلَى سُبْعِ الْبَدَنَةِ أَوِ الْبَقَرَةِ، لأَنَّ الْوَاجِبَ عَلَيْهِ فِي هَدْيِ الْقِرَانِ وَالْمُتَمَتِّعِ سُبْعُ إِحْدَاهُمَا، إِلا عِنْدَ مَنْ يُجِيزُ الْبَدَنَةَ عَنْ عَشَرَةٍ عَلَى مَا بَيَّنْتُ فِي خَبَرِ الْمِسْوَرِ، وَمَرْوَانَ، وَخَبَرِ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَوْ شَاةً تَامَّةً فَمَا زَادَ عَلَى سُبْعِ بَدَنَةٍ أَوْ بَقَرَةٍ، فَهُوَ مُتَطَوِّعٌ بِهِ، وَلَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِمَّا هُوَ مُتَطَوِّعٌ بِهِ مِنَ الزِّيَادَةِ، كَمَا يُضَحِّي مُتَطَوِّعًا بِالأُضْحِيَّةِ، فَلَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ ضَحِيَّتِهِ، وَعَلَى هَذَا الْمَعْنَى عِلْمِي أَكْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ لُحُومِ بُدْنِهِ، لأَنَّهُ نَحَرَ مِائَةَ بَدَنَةٍ، وَإِنَّمَا كَانَ الْوَاجِبُ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ قَارِنًا سُبْعَ بَدَنَةٍ إِلا عِنْدَ مَنْ يُجِيزُ الْبَدَنَةَ عَنْ عَشَرَةٍ لا أَكْثَرَ، وَهُوَ مُتَطَوِّعٌ بِالزِّيَادَةِ فَجَعَلَ مِنْ كُلِّ بَعِيرٍ بَضْعَةٍ فِي قِدْرٍ فَحَسَا مِنَ الْمَرَقِ، وَأَكَلَ مِنَ اللَّحْمِ، وَإِنْ ذَبَحَ لِتَمَتُّعِهِ أَوْ لِقِرَانِهِ لَمْ يَكُنْ عِنْدِي أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، وَالْعِلْمُ عِنْدِي كَالْمُحِيطِ أَنَّ كُلَّ مَنْ وَجَبَ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ شَيْءٌ لِسَبَبٍ مِنَ الأَسْبَابِ لَمْ يَجُزْ لَهُ أَنْ يَنْتَفِعَ بِمَا وَجَبَ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ وَلا مَعْنَى لِقَوْلِ قَائِلٍ إِنْ قَالَ: يَجِبُ عَلَيْهِ هَدْيٌ، وَلَهُ أَنْ يَأْكُلَ أَوْ بَعْضَهُ، لأَنَّ الْمَرْءَ إِنَّمَا لَهُ أَنْ يَأْكُلَ مَالَ نَفْسِهِ، أَوْ مَالَ غَيْرِهِ بِإِذْنِ مَالِكِهِ، فَإِنْ كَانَ الْهَدْيُ وَاجِبًا عَلَيْهِ، فَمُحَالٌ أَنْ يُقَالَ وَاجِبٌ عَلَيْهِ، وَهُوَ مَالٌ لَهُ يَأْكُلُهُ، وَقَوْلُ هَذِهِ الْمَقَالَةِ يُوجِبُ أَنَّ الْمَرْءَ إِذَا وَجَبَتْ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ فِي مَاشِيَتِهِ أَنَّ لَهُ أَنْ يَذْبَحَهَا، فَيَأْكُلَهَا، وَإِنْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ عُشْرُ حَبٍّ فَلَهُ أَنْ يَطْحَنَهُ، وَيَأْكُلَهُ، وَإِنْ وَجَبَ عَلَيْهِ عُشْرُ ثِمَارٍ فَلَهُ أَنْ يَأْكُلَهُ، وَهَذَا لا يَقُولُهُ مَنْ يُحْسِنُ الْفِقْهَ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا کہ قربانی کے ہر اونٹ کے گوشت میں سے ایک ٹکڑا لیکر ہنڈیا میں ڈالا جائے چنانچہ وہ گوشت پکا دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھیوں نے وہ گوشت کھایا اور شوربه پیا۔ یہ روایت حسن زعفرانی کی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ایک سوال کرنے والے نے سوال کیا، کیا حج میں واجب قربانی کرنے والا اس قربانی کے گوشت میں سے کھا سکتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جب حج تمتع یا حج قران کرنے والا ایک اونٹ نحر کرے یا ذبح کرے یا اونٹ اور گائے کے ساتویں حصّے سے زیادہ کی قربانی کرے تو وہ ساتویں حصّے سے زائد گوشت میں سے کھا سکتا ہے کیونکہ حج تمتع اور قران کرنے والے پر واجب اونٹ یا گائے کا ساتواں حصّہ قربان کرنا ہے یا جن علماء کے نزدیک اونٹ دس افراد کی طرف سے نحر ہوسکتا ہے اُن کے نزدیک حج تمتع اور قران کرنے والے حاجی پر دسواں حصّہ اونٹ کا واجب ہے۔ جیسا کہ سیدنا مسور، مروان اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی روایات میں، میں واضح کر چکا ہوں یا اس حاجی پر ایک مکمّل بکرا ذبح کرنا واجب ہے لہٰذا اونٹ یا گائے کے ساتویں حصّے سے زائد قربانی کرنے والا اس نفل میں سے کھا سکتا ہے جیسا کہ عید پر نفلی قربانیاں کرنے والا اس میں سے کھا سکتا ہے میرے علم کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی لحاظ سے اپنی قربانی کا گوشت کھایا ہے کیونکہ آپ نے سو اونٹ نحر کے تھے۔ یقیناً آپ پر قران کی وجہ سے اونٹ کا ساتواں یا دسواں حصّہ قربانی کرنا واجب تھا۔ اس سے زائد جتنے اونٹ آپ نے قربان کیے وہ سب نفلی تھے۔ لہٰذا آپ نے ان میں سے ایک ایک ٹکڑا لیکر ہنڈیا میں ڈالا اور اسے پکا کر شوربہ پیا اور گوشت کھایا لیکن اگر آپ حج قران یا تمتع کے لئے صرف واجب مقدار میں قربانی کرتے تو میرے نزدیک اس میں سے گوشت کھانا جائز نہیں تھا، میرے نزدیک یہ بات یقینی ہے کہ جس شخص کے مال میں کوئی حق واجب ہو جائے تو وہ محض اس واجب ہونے والے مال سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے تو اس کی بات ناقابل قبول ہوگی کہ اس پر حج کی قربانی واجب ہے لیکن وہ اس کا سارا یا کچھ گوشت کھا سکتا ہے کیونکہ انسان اپنا مال خود کھا سکتا ہے اور کسی دوسرے شخص کا مال اُس کی اجازت کے ساتھ کھا سکتا ہے۔ لیکن اگر اس پر حج کی قربانی واجب ہو تو یہ کہنا محال ہے کہ یہ قربانی اس پر واجب ہے لیکن یہ اسی کا مال ہے اس لئے اسے کھا سکتا ہے اس قول کی زد میں یہ مسئلہ آئے گا کہ جس شخص کے جانوروں میں زکوٰۃ واجب ہو وہ شخص زکوٰة کا جانور ذبح کرکے کھا سکتا ہے اور اگر اس کے اناج میں عشر واجب ہو تو وہ اسے پیس کر کھا سکتا ہے اور اگر اس کے پھلوں میں زکوٰۃ واجب ہو تو وہ اس پھل کو کھا سکتا ہے۔ لیکن دین کی سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی شخص ایسی بات نہیں کرسکتا۔