صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
1961. ‏(‏220‏)‏ بَابُ الْمُهِلَّةِ بِالْعُمْرَةِ تَقْدَمُ مَكَّةَ وَهِيَ حَائِضٌ
عمرے کا احرام باندھنے والی عورت مکّہ مکرّمہ میں حیض کی حالت میں پہنچے تو وہ کیا کرے
حدیث نمبر: 2788
Save to word اعراب
حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، ان مالكا ، حدثه عن ابن شهاب ، عن عروة ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، فاهللنا بعمرة، قالت: فقدمت مكة، وانا حائض، ولم اطف بالبيت، ولا بين الصفا والمروة، فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " انقضي راسك وامتشطي، واهلي بالحج ودعي العمرة"، قالت: ففعلت، فلما قضينا الحج ارسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم مع عبد الرحمن بن ابي بكر إلى التنعيم فاعتمرت، قال: هذه مكان عمرتك" ، قال ابو بكر: قد كنت زمانا يتخالج في نفسي من هذه اللفظة التي في خبر عائشة، وقول النبي صلى الله عليه وسلم لها انقضي راسك، وامتشطي وكنت افرق ان يكون في امر النبي صلى الله عليه وسلم لها بذلك دلالة على صحة مذهب من خالفنا في هذه المسالة وزعم ان النبي صلى الله عليه وسلم امر عائشة برفض العمرة، ثم وجدت الدليل على صحة مذهبنا، وذلك ان عائشة كانت ترى ان المعتمر إذا دخل الحرم حل له جميع ما يحل للحاج إذا رمى جمرة العقبة، وكان يحل لعائشة بعد دخولها الحرم نقض راسها، والامتشاط، حدثنا بالخبر الذي ذكرت عبد الجبار، ثنا سفيان، سمعه ابن جريج، عن يوسف بن مالك، يخبر عن عائشة بنت طلحة، ان عائشة امرتها ان تنقض شعرها وتغسله، وقالت: إن المعتمر إذا دخل الحرم، فهو بمنزلة الحاج إذا رمى جمرة العقبة، قال ابو بكر: قال الشافعي: إنما امرها رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تترك العمل بعمرة من الطواف والسعي، لا ان ترفض العمرة، وامرها ان تهل بالحج، فتصير قارنة، وهذا عند الشافعي كفعل ابن عمر حين اهل بعمرة، ثم قال: ما ارى سبيلهما إلا واحدا، اشهدكم اني قد اوجبت حجة مع عمرتي، فقرن الحج إلى العمرة قبل ان يطوف للعمرة ويسعى لها فصار قارنا، ومعنى قول النبي صلى الله عليه وسلم لها: هذه مكان العمرة التي لم يمكنك العمل لها، قال ابو بكر: قد بينت هذا الخبر في المسالة الطويلة في تاليف اخبار اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، واختلاف الفاظهم في حجة الوداعحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَنَّ مَالِكًا ، حَدَّثَهُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ، قَالَتْ: فَقَدِمْتُ مَكَّةَ، وَأَنَا حَائِضٌ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَلا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ وَدَعِي الْعُمْرَةَ"، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرْتُ، قَالَ: هَذِهِ مَكَانُ عُمْرَتِكِ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ كُنْتُ زَمَانًا يَتَخَالَجُ فِي نَفْسِي مِنْ هَذِهِ اللَّفْظَةِ الَّتِي فِي خَبَرِ عَائِشَةَ، وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا انْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي وَكُنْتُ أَفْرُقُ أَنْ يَكُونَ فِي أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا بِذَلِكَ دَلالَةٌ عَلَى صِحَّةِ مَذْهَبِ مَنْ خَالَفَنَا فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ وَزَعَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عَائِشَةَ بِرَفْضِ الْعُمْرَةِ، ثُمَّ وَجَدْتُ الدَّلِيلَ عَلَى صِحَّةِ مَذْهَبِنَا، وَذَلِكَ أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تَرَى أَنَّ الْمُعْتَمِرَ إِذَا دَخَلَ الْحَرَمَ حَلَّ لَهُ جَمِيعُ مَا يَحِلُّ لِلْحَاجِّ إِذَا رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، وَكَانَ يَحِلُّ لِعَائِشَةَ بَعْدَ دُخُولِهَا الْحَرَمَ نَقْضُ رَأْسِهَا، وَالامْتِشَاطِ، حَدَّثَنَا بِالْخَبَرِ الَّذِي ذَكَرْتُ عَبْدُ الْجَبَّارِ، ثنا سُفْيَانُ، سَمِعَهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَالِكٍ، يُخْبِرُ عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أَمَرَتْهَا أَنْ تَنْقُضَ شَعَرَهَا وَتَغْسِلَهُ، وَقَالَتْ: إِنَّ الْمُعْتَمِرَ إِذَا دَخَلَ الْحَرَمَ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْحَاجِّ إِذَا رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا أَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتْرُكَ الْعَمَلَ بِعُمْرَةٍ مِنَ الطَّوَافِ وَالسَّعْيِ، لا أَنْ تَرْفُضَ الْعُمْرَةَ، وَأَمَرَهَا أَنْ تُهِلَّ بِالْحَجِّ، فَتَصِيرُ قَارِنَةً، وَهَذَا عِنْدَ الشَّافِعِيِّ كَفِعْلِ ابْنِ عُمَرَ حِينَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ قَالَ: مَا أَرَى سَبِيلَهُمَا إِلا وَاحِدًا، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجَّةً مَعَ عُمْرَتِي، فَقَرَنَ الْحَجَّ إِلَى الْعُمْرَةِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ لِلْعُمْرَةِ وَيَسْعَى لَهَا فَصَارَ قَارِنًا، وَمَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا: هَذِهِ مَكَانُ الْعُمْرَةِ الَّتِي لَمْ يُمْكِنْكِ الْعَمَلَ لَهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ بَيَّنْتُ هَذَا الْخَبَرَ فِي الْمَسْأَلَةِ الطَّوِيلَةِ فِي تَأْلِيفِ أَخْبَارِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاخْتِلافِ أَلْفَاظِهِمْ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع میں (سفر پر) نکلے تو ہم نے عمرے کا احرام باندھا اور تلبیہ پکارا۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں مکّہ مکرّمہ اس حال میں پہنچی کہ میں حائضہ تھی۔ میں نے بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کیا اور نہ صفا مروہ کی سعی کی۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا شکوہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بال کھول دو، کنگھی کرلو اور حج کا احرام باندھ لو اور عمرے کے اعمال چھوڑ دو۔ لہٰذا میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب ہم نے حج ادا کرلیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تنعیم کی طرف بھیجا (تاکہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھ سکوں) پس میں نے عمرہ ادا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے عمرے کے بدلے میں ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ کافی عرصے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے بارے میں میرا دل اُلجھن اور تردد کا شکار تھا۔ نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے یہ فرمانا: اپنے سر کے بال کھول دو اور کنگھی کرلو۔ مجھے خدشہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حُکم دینے میں ہمارے مخالفین کے مذہب کی دلیل ہے جو اس مسئلہ میں کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کوعمرہ فسخ کرنے کا حُکم دیا تھا۔ پھر مجھے اپنے مذہب اور موقف کے درست ہونے کی دلیل مل گئی اور وہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف یہ تھا کہ عمرہ کرنے والا حرم میں داخل ہو جائے تو اُس کے لئے وہ تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں جو حج کرنے والے پر جمرہ عقبہ کی رمی کر لینے کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔ اس لئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حدود حرم میں داخل ہونے کے بعد بال کھولنا اورکنگھی کرنا حلال تھا۔ اس کی دلیل وہ روایت ہے جو انہوں نے بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ بن طلحہ بیان کرتی ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں حُکم دیا کہ وہ اپنے بال کھول دے اور انہیں دھولے، اور انہوں نے فرمایا کہ بیشک عمرہ کرنے والا جب حدود حرم میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ اسی طرح حلال ہو جاتا ہے جیسے حاجی جمرہ عقبہ کو رمی کرنے کے بعد حلال ہو جاتا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمه الله یہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے عمرے میں طواف اور سعی سے روکا تھا، یہ نہیں کہ اُنہیں عمرہ نہ کرنے کا حُکم دیا تھا۔ آپ نے اُنہیں حُکم دیا تھا کہ وہ حج کا احرام باندھ کر حج قران کی نیت کرلیں۔ امام شافعی رحمه الله کی یہ رائے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل جیسی بھی ہے۔ جیسا کہ اُنہوں نے پہلے عمرے کا احرام باندھا تھا پھر کہنے لگے کہ میرے خیال میں حج اور عمرے حُکم و طریقہ ایک ہی ہے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج کی نیت بھی کرلی ہے، اس طرح انہوں نے عمرے کی سعی اور طواف کرنے سے پہلے اپنے عمرے کے ساتھ حج کو بھی ملا لیا۔ اور وہ حج قران کرنے والے بن گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ فرمانا کہ یہ تمہارے عمرے کی جگہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اعمال تم ادا نہیں کر سکی تھیں وہ اب ادا کر لیے ہیں۔ یہ ان کا بدلہ ہو گئے ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے اس روایت کو ایک طویل مسئلے میں بیان کیا ہے جس میں میں نے حجة الوداع کے بارے میں صحابہ کرام کی روایات اور ان کے مختلف الفاظ کو جمع کرکے ان میں معنوی اتحاد و اتفاق پیدا کیا ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.