جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے |
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے 1931. (190) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى صِحَّةِ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی جو تاویل میں نے کی ہے،
اس کے صحیح ہونے کی دلیل کا بیان اور اس بات کا بیان کہ حطیم کا پورا حصّہ بیت اللہ کا حصّہ نہیں بلکہ کچھ حطیم بیت اللہ کا حصّہ ہے
تخریج الحدیث:
جناب عبد اللہ بن عبید بیان کرتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان کے دور حکومت میں حارث بن عبد اللہ ان کے پاس ایک قاصد کی حیثیت سے گئے تو عبدالملک نے کہا کہ میرے خیال میں سیدنا ابو خبیب یعنی ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سُنی نہیں ہے جس کے سُننے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ جناب حارث کہتے ہیں کہ کیوں نہیں، وہ حدیث تو میں نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے۔ عبد الملک نے کہا کہ تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ جناب حارث کہتے ہیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تیری قوم نے بیت اللہ کی بنیادوں کو چھوٹا کردیا تھا اور اگر وہ نئے نئے شرک سے نکل کر مسلمان نہ ہوئے ہوتے تو میں اس حصّے کو بیت اللہ کی بنیادوں میں دوبارہ شامل کردیتا جو اُنہوں نے چھوڑ دیا تھا لہٰذا اگر میرے بعد تیری قوم بیت الله کو (پُرانی بنیادوں پر) بنانا چاہے، تو آؤ میں تمہیں وہ حصّہ دکھا دوں جو اُنہوں نے چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تقریبا ساٹھ ہاتھ کے برابر کی جگہ دکھائی (جو بیت اللہ میں شامل نہیں کی گئی تھی اور وہ حطیم یا مجر کہلاتی ہے) یہ روایت جناب عبد اللہ بن عبید کی ہے۔ جناب ولید بن عطاء نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میں بیت اللہ کے زمین سے ملے ہوئے دو دروازے بناتا، ایک مشرقی جانب اور دوسرا مغربی جانب۔ کیا تمہیں معلوم ہے تیری قوم نے بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں رکھا تھا؟“ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تکبر و غرور کے اظہار کے لئے، تاکہ بیت اللہ شریف میں صرف و شخص داخل ہوسکے جس کو یہ اجازت دیں۔ اور جب ان کا ناپسندیدہ شخص اس میں داخل ہونے کے لئے اوپر چڑھتا تو وہ اسے چڑھنے دیتے، حتّیٰ کہ جب وہ بیت اللہ میں داخل ہونے کے قریب ہوتا تو اسے دھکا دیکر گرا دیتے۔“ عبد الملک نے حارث سے کہا کہ کیا تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے خود سنا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، سنا ہے۔ اس پر عبد الملک کچھ دیر سر جھکائے زمین کریدتا رہا پھر کہنے لگا کہ کاش میں بیت اللہ کو (سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی تعمیر کی ہوئی بنیادوں پر) باقی رہنے دیتا اور (بیت اللہ کو توڑ کر نئے سرے سے بنانے کی ذمہ داری انہی پر رہنے دیتا، جو اُنہوں نے اپنے ذمہ لی تھی۔ سب راویوں کی روایات کے الفاظ متحد ہیں، صرف محمد کی روایت میں یہ الفاظ مختلف آئے ہیں۔ ولید بن عطاء بن جناب بیان کرتے ہیں کہ حارث نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سُنی ہے۔ جناب حارث اس حدیث کی تصدیق کرنے والے تھے۔ جھٹلانے اور انکار کرنے والے نہیں تھے۔ عبد الملک نے پوچھا کہ تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ جناب حارث نے جواب دیا کہ میں نے انہیں سنا وہ فرما رہی تھیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، اور فرمایا کہ ”تو میں اس کے دو دروازے بناتا۔“ اور فرمایا: ”وہ اس شخص کو اوپر چڑھنے دیتے“۔
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
|
https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com
No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.