صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2037. ‏(‏296‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ لِلنِّسَاءِ وَالضُّعَفَاءِ الَّذِينَ رُخِّصَ لَهُمْ فِي الْإِفَاضَةِ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ فِي رَمْيِ الْجِمَارِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ
جن عورتوں اور کمزور افراد کو رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ جانے کی رخصت دی گئی ہے انہیں سورج طلوع ہونے سے پہلے رمی کرنے کی رخصت ہے۔
حدیث نمبر: 2883
Save to word اعراب
حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، وعيسى بن إبراهيم الغافقي ، قالا: حدثنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب , ان سالم بن عبد الله اخبره، ان عبد الله بن عمر ، كان يقدم ضعفة اهله، فمنهم ممن يقدم منى لصلاة الفجر، ومنهم من يقدم بعد ذلك، فإذا قدموا رموا الجمرة ، وكان ابن عمر، يقول:" ارخص في اولئك رسول الله صلى الله عليه وسلم"، قال ابو بكر: قد خرجت طرق اخبار ابن عباس في كتابي الكبير ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ابني، لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس"، ولست احفظ في تلك الاخبار إسنادا ثابتا من جهة النقل، فإن ثبت إسناد واحد منها، فمعناه ان النبي صلى الله عليه وسلم زجر المذكور ممن قدمهم تلك الليلة عن رمي الجمار قبل طلوع الشمس، لا السامع المذكور، لان خبر ابن عمر يدل على ان النبي صلى الله عليه وسلم قد اذن لضعفة النساء في رمي الجمار قبل طلوع الشمس، فلا يكون خبر ابن عمر خلاف خبر ابن عباس، إن ثبت خبر ابن عباس من جهة النقل على ان رمي الجمار لضعفة النساء بالليل قبل طلوع الفجر ايضا عندي جائز للخبر الذي اذكره في الباب الذي يلي هذا إن شاء اللهحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، وَعِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغَافِقِيُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يُقَدِّمُ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ، فَمِنْهُمْ مِمَّنْ يَقْدَمُ مِنًى لِصَلاةِ الْفَجْرِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقْدَمُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَإِذَا قَدِمُوا رَمَوَا الْجَمْرَةَ ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَقُولُ:" أَرْخَصَ فِي أُولَئِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ خَرَّجْتُ طُرُقَ أَخْبَارِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي كِتَابِي الْكَبِيرِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَبَنِيَّ، لا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ"، وَلَسْتُ أَحْفَظُ فِي تِلْكَ الأَخْبَارِ إِسْنَادًا ثَابِتًا مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، فَإِنْ ثَبَتَ إِسْنَادٌ وَاحِدٌ مِنْهَا، فَمَعْنَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَجَرَ الْمَذْكُورَ مِمَّنْ قَدَّمَهُمْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ عَنْ رَمْيِ الْجِمَارِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، لا السَّامِعَ الْمَذْكُورَ، لأَنَّ خَبَرَ ابْنِ عُمَرَ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَذِنَ لِضَعْفَةِ النِّسَاءِ فِي رَمْيِ الْجِمَارِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، فَلا يَكُونُ خَبَرُ ابْنِ عُمَرَ خِلافَ خَبَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ، إِنْ ثَبَتَ خَبَرُ ابْنِ عَبَّاسٍ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ عَلَى أَنَّ رَمْيَ الْجِمَارِ لِضَعْفَةِ النِّسَاءِ بِاللَّيْلِ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ أَيْضًا عِنْدِي جَائِزٌ لِلْخَبَرِ الَّذِي أَذْكُرُهُ فِي الْبَابِ الَّذِي يَلِي هَذَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ
حضرت سالم بن عبداللہ رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گھر کے کمزور افراد کو (مزدلفہ سے منیٰ) پہلے ہی روانہ کردیتے تھے۔ پھر ان میں سے کچھ نماز فجر کے وقت منیٰ پہنچتے تو کچھ اس کے بعد پہنچ جاتے۔ جب وہ منیٰ پہنچ جاتے تو جمرہ عقبہ کو رمی کرتے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اجازت دی ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے طرق کتاب الکبیر میں بیان کر دیئے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے میرے بیٹو، سورج طلوع ہونے تک جمرے کو کنکریاں مت مارنا۔ ان تمام روایات میں مجھے کسی کی سند کا علم نہیں کہ کوئی روایت ان میں سے ثابت بھی ہے لیکن اگر کوئی ایک سند بھی میں ثابت ہو جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان افراد کو سورج طلوع ہونے سے قبل رمی کرنے سے منع کیا تھا جنہیں آپ نے مزدلفہ سے رات کے وقت روانہ کیا تھا۔ تمام سامعین کو منع نہیں کیا تھا۔ کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے عورتوں اور کمزوروں کو سورج طلوع ہونے سے پہلے رمی کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس طرح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے مخالف نہیں رہیگی۔ بشرطیکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سند کے اعتبار سے ثابت ہو، میرے نزدیک کمزور عورتوں کے لئے رات کے وقت رمی کرنا جائز ہے، اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے میں اگلے باب میں ذکر کروںگا۔ ان شاء اللہ۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.