وجدت في كتاب ابي هذا الحديث بخط يده، حدثنا سعيد يعني ابن سليمان سعدويه ، قال: حدثنا عباد يعني ابن العوام ، عن هارون بن عنترة , عن ابيه ، قال: لما قتل الحجاج ابن الزبير وصلبه منكوسا، فبينا هو على المنبر، إذ جاءت اسماء ، ومعها امة تقودها، وقد ذهب بصرها، فقالت: اين اميركم؟ فذكر قصة، فقالت: كذبت، ولكني احدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يخرج من ثقيف كذابان، الآخر منهما اشر من الاول، وهو مبير" .وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي هَذَا الْحَدِيثَ بِخَطِّ يَدِهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ سَعْدَوَيْهِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ يَعْنِي ابْنَ الْعَوَّامِ ، عَنْ هَارُونَ بْنِ عنترة , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: لَمَّا قَتَلَ الْحَجَّاجُ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَصَلَبَهُ مَنْكُوسًا، فَبَيْنَا هُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، إِذْ جَاءَتْ أَسْمَاءُ ، وَمَعَهَا أَمَةٌ تَقُودُهَا، وَقَدْ ذَهَبَ بَصَرُهَا، فَقَالَتْ: أَيْنَ أَمِيرُكُمْ؟ فَذَكَرَ قِصَّةً، فَقَالَتْ: كَذَبْتَ، وَلَكِنِّي أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَخْرُجُ مِنْ ثَقِيفٍ كَذَّابَانِ، الْآخِرُ مِنْهُمَا أَشَرُّ مِنَ الْأَوَّلِ، وَهُوَ مُبِيرٌ" .
عنترہ کہتے ہیں کہ جب حجاج بن یوسف حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرچکا ان کا جسم پھانسی سے لٹکا ہوا تھا اور حجاج منبر پر تھا کہ تو حضرت اسما آگئیں ان کے ساتھ ایک باندی تھی جو انہیں لے کر آرہی تھی کیونکہ ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی، انہوں نے فرمایا تمہارا امیر کہاں ہے؟ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا تو جھوٹ بولتا ہے واللہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ بنوثقیف میں سے دو کذاب آدمیوں کا خروج عنقریب ہوگا جن میں سے دوسرا پہلے کی نسبت زیادہ بڑا شر اور فتنہ ہوگا اور وہ مبیر ہوگا۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لكن بلفظ: "ان فى ثقيف كذابا و مبيرا" وهذا اسناد فيه هارون بن عنترة، وفيه كلام، وقد انفرد بسياق هذه القصة. وقوله: "منكوسا" تفرد له، وان الحجاج هو الذى دخل على اسماء