حدثنا حجين بن المثنى ، قال: حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي سلمة الماجشون ، عن محمد يعني ابن المنكدر ، قال: كانت اسماء تحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: قال: " إذا دخل الإنسان قبره، فإن كان مؤمنا، احف به عمله، الصلاة والصيام" , قال:" فياتيه الملك من نحو الصلاة، فترده، ومن نحو الصيام، فيرده" , قال:" فيناديه اجلس" , قال:" فيجلس، فيقول له: ماذا تقول في هذا الرجل يعني النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: من؟ قال: محمد , قال: انا اشهد انه رسول الله صلى الله عليه وسلم ," قال:" يقول وما يدريك؟ ادركته؟ قال: اشهد انه رسول الله" , قال:" يقول على ذلك عشت، وعليه مت، وعليه تبعث" , قال:" وإن كان فاجرا، او كافرا" , قال:" جاء الملك وليس بينه وبينه شيء يرده" , قال:" فاجلسه" , قال:" يقول: اجلس، ماذا تقول في هذا الرجل؟ قال: اي رجل؟ قال: محمد , قال: يقول والله ما ادري، سمعت الناس يقولون شيئا، فقلته" , قال:" فيقول له الملك على ذلك عشت، وعليه مت، وعليه تبعث" , قال:" وتسلط عليه دابة في قبره، معها سوط، تمرته جمرة مثل غرب البعير، تضربه ما شاء الله، صماء لا تسمع صوته فترحمه" .حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ الْمُنْكَدِرِ ، قَالَ: كَانَتْ أَسْمَاءُ تُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ: " إِذَا دَخَلَ الْإِنْسَانُ قَبْرَهُ، فَإِنْ كَانَ مُؤْمِنًا، أَحَفَّ بِهِ عَمَلُهُ، الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ" , قَالَ:" فَيَأْتِيهِ الْمَلَكُ مِنْ نَحْوِ الصَّلَاةِ، فَتَرُدُّهُ، وَمِنْ نَحْوِ الصِّيَامِ، فَيَرُدُّهُ" , قَالَ:" فَيُنَادِيهِ اجْلِسْ" , قَالَ:" فَيَجْلِسُ، فَيَقُولُ لَهُ: مَاذَا تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَنْ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ , قَالَ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ," قَالَ:" يَقُولُ وَمَا يُدْرِيكَ؟ أَدْرَكْتَهُ؟ قال: أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ" , قَالَ:" يَقُولُ عَلَى ذَلِكَ عِشْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ" , قَالَ:" وَإِنْ كَانَ فَاجِرًا، أَوْ كَافِرًا" , قَالَ:" جَاءَ الْمَلَكُ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ يَرُدُّهُ" , قَالَ:" فَأَجْلَسَهُ" , قَالَ:" يَقُولُ: اجْلِسْ، مَاذَا تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ قَالَ: أَيُّ رَجُلٍ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ , قَالَ: يَقُولُ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَقُلْتُهُ" , قَالَ:" فَيَقُولُ لَهُ الْمَلَكُ عَلَى ذَلِكَ عِشْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ" , قَالَ:" وَتُسَلَّطُ عَلَيْهِ دَابَّةٌ فِي قَبْرِهِ، مَعَهَا سَوْطٌ، تَمْرَتُهُ جَمْرَةٌ مِثْلُ غَرْبِ الْبَعِيرِ، تَضْرِبُهُ مَا شَاءَ اللَّهُ، صَمَّاءُ لَا تَسْمَعُ صَوْتَهُ فَتَرْحَمَهُ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان کو اس کی قبر میں داخل کردیا جاتا ہے اور وہ مؤمن ہو تو اس کے اعمال مثلا نماز، روزہ اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں، فرشتہ عذاب نماز کی طرف سے آنا چاہتا ہے تو نماز اسے روکی دیتی ہے، روزے کی طرف سے آنا چاہے تو روزہ روک دیتا ہے، وہ اسے پکار کر بیٹھنے کے لئے کہتا ہے چنانچہ انسان بیٹھ جاتا ہے، فرشتہ اس سے پوچھتا ہے کہ تو اس آدمی یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہتا ہے؟ وہ پوچھتا ہے کون آدمی؟ فرشتہ کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتا ہے میں گواہی دیتاہوں کہ وہ اللہ کے پیغمبر ہیں، فرشتہ کہتا ہے کہ تو اسی پر زندہ رہا اور اسی پر تجھے موت آگئی اور اسی پر تجھے اٹھایا جائے گا۔ اور اگر مردہ فاجریا کافر ہو تو جب فرشتہ اس کے پاس آتا ہے تو درمیان میں اسے واپس لوٹا دینے والی کوئی چیز نہیں ہوتی، وہ اسے بٹھاکرپوچھتا ہے کہ تو اس آدمی کے متعلق کیا کہتا ہے؟ مردہ پوچھتا ہے کون آدمی وہ کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، مردہ کہتا ہے کہ واللہ میں کچھ نہیں جانتا، میں لوگوں کو جو کہتے ہوئے سنتا تھا، وہی کہہ دیتا تھا، فرشتہ کہتا ہے کہ تو اسی پر زندہ رہا، اسی پر مرا اور اسی پر تجھے اٹھایا جائے گا، پھر اس پر قبر میں ایک جانور کو مسلط کردیا جاتا ہے اس کے پاس ایک کوڑا ہوتا ہے جس کے سرے پر چنگاری ہوتی ہے جیسے اونٹ کی نوک ہو جب تک اللہ کو منظور ہوگا وہ اسے مارتا رہے گا، وہ جانور بہرا ہے جو آواز سن ہی نہیں سکتا کہ اس پر رحم کھالے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، لم يذكر سماع محمد بن المنكدر من اسماء، وهو قد ادركها