حدثنا محمد بن فضيل ، قال: حدثنا يزيد يعني ابن ابي زياد ، عن مجاهد ، قال: قال عبد الله بن الزبير: افردوا بالحج، ودعوا قول هذا يعني ابن عباس، فقال ابن العباس: الا تسال امك عن هذا؟ فارسل إليها، فقالت: صدق ابن عباس ، خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجاجا، فامرنا، فجعلناها عمرة، فحل لنا الحلال، حتى سطعت المجامر بين النساء والرجال" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ: أَفْرِدُوا بِالْحَجِّ، وَدَعُوا قَوْلَ هَذَا يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ الْعَبَّاسِ: أَلَا تَسْأَلُ أُمَّكَ عَنْ هَذَا؟ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ: صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَّاجًا، فَأَمَرَنَا، فَجَعَلْنَاهَا عُمْرَةً، فَحَلَّ لَنَا الْحَلَالُ، حَتَّى سَطَعَتْ الْمَجَامِرُ بَيْنَ النِّسَاءِ وَالرِّجَالِ" .
مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں حج افراد کیا کرو اور ابن عباس کی بات چھوڑ دو، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آپ اپنی والدہ سے کیوں نہیں پوچھ لیتے چنانچہ انہوں نے ایک قاصد حضرت اسماء کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا ابن عباس سچ کہتے ہیں، ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اسے عمرے کا احرام بنا لیا اور ہمارے لئے تمام چیزیں حسب سابق حلال ہوگئیں حتی کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان انگیٹھیاں بھی دہکائی گئیں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد