حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، قال: حدثنا هشام بن عروة ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: قدمت علي امي وهي راغبة، وهي مشركة في عهد قريش ومدتهم التي كانت بينهم وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن امي قدمت علي وهي راغبة، وهي مشركة، افاصلها؟ قال:" صليها" , قال: واظنها ظئرها.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ رَاغِبَةٌ، وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَمُدَّتِهِمْ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ، وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ:" صِلِيهَا" , قَالَ: وَأَظُنُّهَا ظِئْرَهَا.
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک اور ضرورت مند تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔