حدثنا حسن ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا ابو الاسود ، انه سمع عروة يحدث، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: قدمت امي وهي مشركة في عهد قريش إذ عاهدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستفتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: امي قدمت وهي راغبة، افاصلها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نعم، صلي امك" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: قَدِمَتْ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أُمِّي قَدِمَتْ وَهِيَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، صِلِي أُمَّكِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2620، م: 1003، وهذا إسناد ضعيف، ابن لهيعة سيء الحفظ، وقد توبع