صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
10. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى التَّوْحِيدِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَطْعًا 
باب: موحد قطعی جنتی ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 136
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب كلاهما، عن إسماعيل بن إبراهيم ، قال ابو بكر: حدثنا ابن علية ، عن خالد ، قال: حدثني الوليد بن مسلم ، عن حمران ، عن عثمان ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من مات وهو يعلم انه، لا إله إلا الله، دخل الجنة ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ كلاهما، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ خَالِدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ حُمْرَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ ".
اسماعیل بن ابراہیم (ابن علیہ) نے خالد (حذاء) سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے ولید بن مسلم نے حمران سے، انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مر گیا اور وہ (یقین کے ساتھ) جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ جنت میں داخل ہو گا۔
حمرانؒ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس یقین پر مرا کہ اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی عبادت کا حق دار نہیں ہے، وہ جنّت میں داخل ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (9798)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 137
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا بشر بن المفضل ، حدثنا خالد الحذاء ، عن الوليد ابي بشر ، قال: سمعت حمران ، يقول: سمعت عثمان ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول مثله سواء.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنِ الْوَلِيدِ أَبِي بِشْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمْرَانَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ مِثْلَهُ سَوَاءً.
ابن علیہ کے بجائے بشر بن مفضل نے بھی خالد حذاء سے یہی روایت بیان کی، انہوں نے ولید ابو بشر سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حمران سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سےسنا، وہ کہتے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ..... اس کے بعد بالکل سابقہ روایت کی طرح بیان کیا۔
حضرت حمرانؒ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔ دونوں میں یکسانیت ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (9798)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 138
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن النضر بن ابي النضر ، قال: حدثني ابو النضر هاشم بن القاسم ، حدثنا عبيد الله الاشجعي ، عن مالك بن مغول ، عن طلحة بن مصرف ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في مسير، قال: فنفدت ازواد القوم، قال: حتى هم بنحر بعض حمائلهم، قال: فقال عمر: يا رسول الله، لو جمعت ما بقي من ازواد القوم، فدعوت الله عليها، قال: ففعل، قال: فجاء ذو البر ببره، وذو التمر بتمره، قال: وقال مجاهد: وذو النواة بنواه، قلت: وما كانوا يصنعون بالنوى؟ قال: كانوا يمصونه ويشربون عليه الماء، قال: فدعا عليها حتى ملا القوم ازودتهم، قال: فقال عند ذلك: " اشهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله، لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فيهما، إلا دخل الجنة ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الأَشْجَعِيُّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ، قَالَ: فَنَفِدَتْ أَزْوَادُ الْقَوْمِ، قَالَ: حَتَّى هَمَّ بِنَحْرِ بَعْضِ حَمَائِلِهِمْ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ جَمَعْتَ مَا بَقِيَ مِنْ أَزْوَادِ الْقَوْمِ، فَدَعَوْتَ اللَّهَ عَلَيْهَا، قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَجَاءَ ذُو الْبُرِّ بِبُرِّهِ، وَذُو التَّمْرِ بِتَمْرِهِ، قَالَ: وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَذُو النَّوَاةِ بِنَوَاهُ، قُلْتُ: وَمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ بِالنَّوَى؟ قَالَ: كَانُوا يَمُصُّونَهُ وَيَشْرَبُونَ عَلَيْهِ الْمَاءَ، قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهَا حَتَّى مَلَأَ الْقَوْمُ أَزْوِدَتَهُمْ، قَالَ: فَقَالَ عِنْدَ ذَلِكَ: " أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، لَا يَلْقَى اللَّهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ فِيهِمَا، إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ ".
طلحہ بن مصرف نے ابو صالح سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ورایت کی، کہا: ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، لوگوں کے زاد راہ ختم ہو گئے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی کچھ سواریاں (اونٹوں) کو ذبح کرنے کا ارادہ فرما لیا اس پرعمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! لوگوں کا جو زاد راہ بچ گیا ہے اگر آپ اسے جمع فرما لیں اور اللہ تعالیٰ سے اس پر برکت کی دعا فرمائیں (تو بہتر ہو گا)، کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ گندم والا اپنی گندم لایا اور کھجور والا اپنی کھجور لایا۔ طلحہ بن مصرف نے کہا: مجاہد نے کہا: جس کے پاس گٹھلیاں تھیں، وہ گٹھلیاں ہی لے آیا۔ میں نے (مجاہدسے) پوچھا: گٹھلیاں کا لوگ کیا کرتے تھے؟ کہا: ان کو چوس کر پانی پی لیتے تھے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس (تھوڑے سے زاد راہ) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو پھر یہاں تک ہوا کہ لوگوں نے زاد راہ کے اپنے لیے برتن بھر لیے (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا) اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ بھی ان دونوں (شہادتوں) کے ساتھ، ان میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا، وہ (ضرور) جنت میں داخل ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ لوگوں کا زادِ راہ ختم ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ بعض سواریوں (اونٹوں) کو ذبح کردیا جائے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسولؐ! کاش آپ لوگوں کا بچا کھچا توشہ جمع فرما لیں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا۔ گندم والا اپنی گندم لایا اور کھجور والا کھجو۔ مجاہدؒ کہتے ہیں: جس کے پاس گٹھلیاں تھیں وہ گٹھلیاں لے آیا۔ راوی نے پوچھا (مجاہدؒ سے): کہ گٹھلیوں کا کیا کرتے تھے؟ جواب ملا: ان کو چوس کر پانی پی لیتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جمع شدہ توشہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دعا فرمائی تو لوگوں نے اپنے اپنے توشہ کے برتنوں کو بھر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے جو بندہ بھی اللہ تعالیٰ کو ان دونوں باتوں میں (توحیدو رسالت) بلا شک و شبہ ملے گا وہ جنّت میں داخل ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (12806)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 139
Save to word اعراب
حدثنا سهل بن عثمان ، وابو كريب محمد بن العلاء جميعا، عن ابي معاوية ، قال ابو كريب حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، او عن ابي سعيد شك الاعمش، قال: لما كان غزوة تبوك، اصاب الناس مجاعة، قالوا: يا رسول الله، لو اذنت لنا، فنحرنا نواضحنا، فاكلنا وادهنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: افعلوا، قال: فجاء عمر، فقال: يا رسول الله، إن فعلت قل الظهر، ولكن ادعهم بفضل ازوادهم، ثم ادع الله لهم عليها بالبركة، لعل الله ان يجعل في ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، قال: فدعا بنطع فبسطه، ثم دعا بفضل ازوادهم، قال: فجعل الرجل يجيء بكف ذرة، قال: ويجيء الآخر بكف تمر، قال: ويجيء الآخر بكسرة، حتى اجتمع على النطع من ذلك شيء يسير، قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليه بالبركة، ثم قال: خذوا في اوعيتكم، قال: فاخذوا في اوعيتهم، حتى ما تركوا في العسكر وعاء إلا ملئوه، قال: فاكلوا حتى شبعوا، وفضلت فضلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اشهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله، لا يلقى الله بهما عبد غير شاك، فيحجب عن الجنة ".حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ جميعا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ شَكَّ الأَعْمَشُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ، أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَةٌ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَذِنْتَ لَنَا، فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا، فَأَكَلْنَا وَادَّهَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: افْعَلُوا، قَالَ: فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ فَعَلْتَ قَلَّ الظَّهْرُ، وَلَكِنِ ادْعُهُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ، ثُمَّ ادْعُ اللَّهَ لَهُمْ عَلَيْهَا بِالْبَرَكَةِ، لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَا بِنِطَعٍ فَبَسَطَهُ، ثُمَّ دَعَا بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِكَفِّ ذُرَةٍ، قَالَ: وَيَجِيءُ الآخَرُ بِكَفِّ تَمْرٍ، قَالَ: وَيَجِيءُ الآخَرُ بِكَسْرَةٍ، حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَى النِّطَعِ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ يَسِيرٌ، قَالَ: فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ قَالَ: خُذُوا فِي أَوْعِيَتِكُمْ، قَالَ: فَأَخَذُوا فِي أَوْعِيَتِهِمْ، حَتَّى مَا تَرَكُوا فِي الْعَسْكَرِ وِعَاءً إِلَّا مَلَئُوهُ، قَالَ: فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، وَفَضِلَتْ فَضْلَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، لَا يَلْقَى اللَّهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ، فَيُحْجَبَ عَنِ الْجَنَّةِ ".
اعمش نےابو صالح سے، انہوں نے (اعمش کو شک ہے) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ غزوہ تبوک کے دن (سفرمیں) لوگ کو (زاد راہ ختم ہو جانے کی بنا پر) فاقے لاحق ہو گئے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم پانی ڈھونے والے اونٹ ذبح کر لیں، (ان کا گوشت) کھائیں اور (ان کی چربی) تیل بنائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا کر لو۔ (کہا:) اتنےمیں عمر رضی اللہ عنہ آ گئے اور عرض کی: اللہ کے رسول!اگر آپ نے ایسا کیا تو سواریاں کم ہو جائیں گی، اس کے بجائے آپ سب لوگوں کو ان کے بچے ہوئے زاد راہ سمیت بلوا لیجیے، پھر اس پر ان کے لیے اللہ سے برکت کی دعا کیجیے، امید ہے ا للہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا:) آپ نے چمڑے کاایک دسترخوان منگوا کر بچھا دیا، پھر لوگوں کا بچا ہوا زاد راہ منگوایا (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا:) کوئی مٹھی بھر مکئی، کوئی مٹھی بھر کھجور اور کوئی روٹی کا ٹکڑا لانے لگا یہاں تک کہ ان چیزوں سے دستر خواں پر تھوڑی سی مقدار جمع ہو گئی (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا:) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر برکت کی دعا فرمائی، پھر لوگوں سے فرمایا: اپنے اپنے برتنوں میں (ڈال کر) لے جاؤ۔ سب نے اپنے اپنے برتن بھر لیے یہاں تک کہ انہوں نے لشکر کے برتنوں میں کوئی برتن بھرے بغیر نہ چھوڑا (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا:) اس کے بعد سب نےمل کر (اس دسترخوان سے) سیر ہو کر کھایا لیکن کھانا پھر بھی بچا دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا: میں گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، جو بندہ ان دونوں میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا اسے جنت (میں داخل ہونے) سے نہیں روکا جائے گا
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے یا حضرت ابو سعید ؓ سے (اعمشؓ کو شک ہے) روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے سفر میں لوگوں کو بھوک لاحق ہوئی انھوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! کاش آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم پانی لانے والے اونٹوں کو ذبح کر لیں، کھائیں اور چربی کا تیل بنا لیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے کرلو۔ اتنے میں عمر ؓ آگئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر آپ نے ایسا کیا توسواریاں کم ہو جائیں گی البتہ آپ ان کو ان کے بچے ہوئے زادِ راہ سمیت بلوائیے، پھر ان کے لیے اللہ سے اس پر برکت کی دعا کیجیے۔ امید ہے اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ آپؐ نے چمڑے کا ایک دستر خوان منگوا کر بچھا دیا، پھر لوگوں کا بچا ہوا زادِ راہ منگوایا۔ کوئی شخص مٹھی بھر جوار لا رہا ہے اور کوئی مٹھی بھر کھجور، کوئی روٹی کا ٹکڑا یہاں تک کہ اس سے دستر خوان پر تھوڑی سی تعداد جمع ہو گئی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر لوگوں سے کہا: اپنے برتنوں میں ڈال لو۔ تو سب نے اپنےاپنے برتن بھر لیے یہاں تک کہ لشکر کے تمام برتن بھر گئے تو پھر سب نے مل کرکھایا اور سیر ہو گئے اور کھانا پھر بھی بچ گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور میں اللہ کارسول ہوں۔ جو شخص ان دونوں (توحیدو رسالت) پر یقین رکھتے ہوئے اللہ سے ملے گا وہ جنّت سے محروم نہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4010 و 12535)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 140
Save to word اعراب
حدثنا داود بن رشيد ، حدثنا الوليد يعني ابن مسلم ، عن ابن جابر ، قال: حدثني عمير بن هانئ ، قال: حدثني جنادة بن ابي امية ، حدثنا عبادة بن الصامت ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قال: اشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وان محمدا عبده ورسوله، وان عيسى عبد الله، وابن امته، وكلمته القاها إلى مريم وروح منه، وان الجنة حق، وان النار حق، ادخله الله من اي ابواب الجنة الثمانية شاء ".حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، عَنِ ابْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي جُنَادَةُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ ، حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ، وَابْنُ أَمَتِهِ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ، وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ ".
(عبد الرحمٰن بن یزید) ابن جابر نے کہا: مجھے عمیر بن ہانی نےحدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے جنادہ بن ابی امیہ نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہمیں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نےحدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے (اس کا کوئی شریک نہیں۔) اور یقینا ً محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور عیسیٰ (رضی اللہ عنہ) اللہ کے بندے، اس کی بندی کے بیٹے اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم کی طرف القا کیا تھا، اور اس کی طرف سے (عطا کی گئی) روح ہیں، اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے، اس شخص کو اللہ تعالیٰ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے گا، جنت میں داخل کر دے گا۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سواکوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بے شک محمد اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے اور بے شک عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا بندہ اس کی بندی کا بیٹا ہے اور اس کا کلمہ ہے جس کا اس نے مریم کی طرف القاء کیا اور اس کی طرف سے روح ہے اور جنّت حق ہے، دوزخ حق ہے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو جنّت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے وہ چاہے گا جنّت میں داخل کر دے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الانبياء، باب: قوله تعالى ﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا﴾ برقم (3435) انظر ((التحفة)) برقم (5075)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 141
Save to word اعراب
وحدثني احمد بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا مبشر بن إسماعيل ، عن الاوزاعي ، عن عمير بن هانئ ، في هذا الإسناد بمثله، غير انه قال: ادخله الله الجنة على ما كان من عمل، ولم يذكر: من اي ابواب الجنة الثمانية شاء.وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِئٍ ، فِي هَذَا الإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنْ عَمَلٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ: مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ.
عمیر بن ہانی سے (عبد الرحمٰن بن یزید) ابن جابر کے بجائے اوزاعی کے واسطے سے یہی حدیث بیان کی گئی ہے، البتہ انہوں نے اس طرح کہا: اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا، اس کے عمل جیسے بھی ہوں۔ اور اسے جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سےچاہے گا (داخل کر دے گا) کا ذکر نہیں کیا۔
عمیر بن ہانیؒ نے مذکورہ بالا سند سے یہی حدیث سنائی، آخری الفاظ یہ ہیں اللہ تعالیٰ اسے جنّت میں داخل کرے گا اس کے عمل کیسے بھی ہوں۔ اور جنّت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہو جائے کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (139)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 142
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن ابن عجلان ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، عن ابن محيريز ، عن الصنابحي ، عن عبادة بن الصامت ، انه قال: دخلت عليه وهو في الموت، فبكيت، فقال: مهلا لم تبكي، فوالله لئن استشهدت لاشهدن لك، ولئن شفعت لاشفعن لك، ولئن استطعت لانفعنك، ثم قال: والله ما من حديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لكم فيه خير، إلا حدثتكموه إلا حديثا واحدا، وسوف احدثكموه اليوم وقد احيط بنفسي، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من شهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، حرم الله عليه النار ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ، فَبَكَيْتُ، فَقَالَ: مَهْلًا لِمَ تَبْكِي، فَوَاللَّهِ لَئِنِ اسْتُشْهِدْتُ لَأَشْهَدَنَّ لَكَ، وَلَئِنِ شُفِّعْتُ لَأَشْفَعَنَّ لَكَ، وَلَئِنِ اسْتَطَعْتُ لَأَنْفَعَنَّكَ، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ مَا مِنْ حَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكُمْ فِيهِ خَيْرٌ، إِلَّا حَدَّثْتُكُمُوهُ إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا، وَسَوْفَ أُحَدِّثُكُمُوهُ الْيَوْمَ وَقَدْ أُحِيطَ بِنَفْسِي، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ النَّارَ ".
حضرت عباد بن صامت رضی اللہ عنہ سے جنادہ بن ابی امیہ کے بجائے (ابو عبداللہ عبدالرحمٰن بن عسیلہ) صنابحی نے روایت کی، انہوں نے کہا: میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی موت کے وقت ان کے پاس حاضر ہوا۔ میں رونے لگا تو انہوں نے فرمایا: ٹھہرو! روتے کیوں ہو؟ اللہ کی قسم! اگر مجھ سے گواہی مانگی گئی تو میں ضرور تمہارے حق میں گواہی دوں گا او راگر مجھے سفارش کا موقع دیا گیا تو میں ضرور تمہاری سفارش کروں گا اوراگر میرے بس میں ہوا تو میں ضرور تمہیں نفع پہنچاؤں گا، پھر کہا: اللہ کی قسم! کوئی ایسی حدیث نہیں جو میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، اور اس میں تمہاری بھلائی کی کوئی بات تھی اور وہ میں نے تمہیں نہ سنا دی ہو، سوائےایک حدیث کے۔ آج جب میری جان قبض کی جانے لگی ہے تو وہ حدیث بھی تمہیں سنائے دیتا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے اس حقیقت کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس پر جہنم کی آگ حرام کر دی۔
صنابحیؒ بیان کرتے ہیں: کہ میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا جب کہ وہ موت کے قریب تھے، تو میں رو پڑا، وہ مجھے فرمانے لگے: ٹھہریے! کیوں روتے ہو؟ پس اللہ کی قسم! اگر مجھ سے گواہی لی گئی، تو میں ترے حق میں گواہی دوں گا اور اگر مجھے سفارش کا موقع ملا، تو میں تیری سفارش کروں گا اور اگر میرے بس میں ہوا، تو میں تجھے ضرور نفع پہنچاؤں گا۔ پھر کہا: اللہ کی قسم! جو حدیث بھی میں نے تمھاری بہتری کے باعث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، وہ ایک حدیث کے سوا تم تک پہنچا دی اور وہ حدیث بھی آج تمھیں سنائے دیتا ہوں، کیونکہ میری جان قبض ہونے کو ہے۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو فرماتے ہوئے سُنا: جس شخص نے اس بات پر گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام کر دے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: ما جاء فيمن يموت وهو يشهد ان لا اله الا الله- وقال: حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه برقم (2638) انظر ((التحفة)) برقم (5099)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 143
Save to word اعراب
حدثنا هداب بن خالد الازدي ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، حدثنا انس بن مالك ، عن معاذ بن جبل ، قال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم، ليس بيني وبينه إلا مؤخرة الرحل، فقال: يا معاذ بن جبل، قلت: لبيك رسول الله وسعديك، ثم سار ساعة، ثم قال: يا معاذ بن جبل، قلت: لبيك رسول الله وسعديك، ثم سار ساعة، ثم قال: يا معاذ بن جبل، قلت: لبيك رسول الله وسعديك، قال: " هل تدري ما حق الله على العباد؟ قال: قلت الله ورسوله اعلم، قال: فإن حق الله على العباد، ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا، ثم سار ساعة، قال: يا معاذ بن جبل، قلت: لبيك رسول الله وسعديك، قال: هل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟ قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال: ان لا يعذبهم ".حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: " هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ قَالَ: قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ، أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، قَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی، کہا: میں (سواری کے ایک جانور پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، میرے اور آپ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کی لکڑی (جتنی جگہ) کے سوا کچھ نہ تھا، چنانچہ (اس موقع پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کی: میں حاضر ہوں اللہ کے رسول!ز ہے نصیب۔ (اس کے بعد) آپ پھر گھڑی بھرچلتے رہے، اس کے بعد فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کی: میں حاضر ہوں، اللہ کے رسول! زہے نصیب۔ آپ نے فرمایا: کیاجانتے ہو کہ بندوں پر ا للہ عز وجل کا کیا حق ہے؟ کہا: میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ ارشاد فرمایا: بندوں پر اللہ عزوجل کا حق یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرین۔ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں عرض کی: میں حاضر ہوں اللہ کے رسول! ز ہے نصیب۔ آپ نے فرمایا: کیا آپ جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کاحق ادا کریں تو پھر ا للہ پر ان کا حق کیا ہے؟ میں نے عرض کی، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پیچھے سوار تھا میرے اور آپؐ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کے سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول میں حاضر ہوں، اور خدمت کے لیے تیار ہوں! پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا میں خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا فرمانبردار ہوں! پھر کچھ وقت چلنے کے بعد فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا میں حاضرِ خدمت ہوں اور اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: کیا تم جانتے ہوکہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ ارشاد فرمایا: اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا: حاضر ہوں اور خدمت کے لیے تیار ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: کیا جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کا یہ حق ادا کریں تو پھر اللہ پر ان کا کیا حق ہے؟۔ میں نے عرض کیا: اللہ اورسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: یہ کہ انھیں عذاب میں نہ ڈالے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى (صحيحه)) فى اللباس، باب: ارداف الرجل خلف الرجل برقم (5967) وفي الاستئذان، باب: من اجاب بلبيك وسعديك برقم (6267) وفي الرقاق، باب: من جاهد نفسه فى طاعة الله برقم (6500) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (11308)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 144
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص سلام بن سليم ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن معاذ بن جبل ، قال: كنت ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم على حمار يقال له: عفير، قال: فقال: يا معاذ، تدري ما حق الله على العباد، وما حق العباد على الله؟ قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن حق الله على العباد، ان يعبدوا الله ولا يشركوا به شيئا، وحق العباد على الله عز وجل، ان لا يعذب من لا يشرك به شيئا "، قال: قلت: يا رسول الله، افلا ابشر الناس؟ قال: لا تبشرهم فيتكلوا.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ: عُفَيْرٌ، قَالَ: فَقَالَ: يَا مُعَاذُ، تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ، وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ، أَنْ يَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: لَا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا.
عمرو بن میمون نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گدھے پر سوار تھا جسے عفیر کہا جاتا تھا۔ آپ نے فرمایا: اے معاذ! جانتے ہو، بندوں پر اللہ کاکیا حق ہے اور اللہ پربندوں کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: بندوں پر اللہ کاحق یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو بندہ اس کے ساتھ (کسی چیزکو) شریک نہ ٹھہرائے، اللہ اس کو عذاب نہ دے۔ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ سناؤں؟ آپ نے فرمایا: ان کو خوش خبری نہ سناؤ وورنہ وہ اسی پر بھروسہ کر لیں گے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ میں عفیر نامی گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے پیچھے سوار تھا۔ آپؐ نے فرمایا: اے معاذ! جانتے ہو اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے، جو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائے اس کو عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ سناؤں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ان کو خوش خبری نہ دو وہ اسی پر بھروسا کر لیں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((الجهاد)) باب: اسم الفرس والحمار برقم (2701) وابوداؤد فى ((سننه)) فى الجهاد، باب: فى الرجل يسمى دابته باختصار برقم (2856) والترمذى فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: ما جاء فى افتراق هذه الامة۔ ولم يذكر قصه الحمار، وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2643) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (11351)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 145
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي حصين والاشعث بن سليم ، انهما سمعا الاسود بن هلال يحدث، عن معاذ بن جبل ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا معاذ، " اتدري ما حق الله على العباد؟ قال: الله ورسوله اعلم، قال: ان يعبد الله ولا يشرك به شيء، قال: اتدري ما حقهم عليه إذا فعلوا ذلك؟ فقال: الله ورسوله اعلم، قال: ان لا يعذبهم ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ وَالأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ ، أَنَّهُمَا سَمِعَا الأَسْوَدَ بْنَ هِلَالٍ يُحَدِّثُ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: يَا مُعَاذُ، " أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَنْ يُعْبَدَ اللَّهُ وَلَا يُشْرَكَ بِهِ شَيْءٌ، قَالَ: أَتَدْرِي مَا حَقُّهُمْ عَلَيْهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟ فَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ ".
شعبہ نے ابوحصین اور اشعث بن سلیم سے حدیث سنائی، ان دونوں نے اسود بن ہلال سے سنا، وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا تم جانتے ہو بندوں پر اللہ کا کیاحق ہے؟ معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ اللہ کی بندگی کی جائے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ آپ نے پوچھا: کیا جانتے ہو اگر وہ (بندے) ایسا کریں تو اللہ پر ان کیا حق ہے؟ میں نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا تم جانتے ہو اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ معاذ (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: اللہ کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک قرار نہ دیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو، اگر بندے یہ فرض انجام دیں تو ان کا اس پر (اللہ پر) کیا حق ہے؟۔ میں نے جواب دیا: اللہ اور رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ان کو عذاب نہ دے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى التوحيد، باب: ما جاء فى دعاء النبى صلى الله عليه وسلم امته الى توحيد الله تبارك وتعالى برقم (7373) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (11306)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 146
Save to word اعراب
حدثنا القاسم بن زكرياء ، حدثنا حسين ، عن زائدة ، عن ابي حصين ، عن الاسود بن هلال ، قال: سمعت معاذا ، يقول: دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فاجبته، فقال: هل تدري ما حق الله على الناس، نحو حديثهم.حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاذًا ، يَقُولُ: دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى النَّاسِ، نَحْوَ حَدِيثِهِمْ.
زائدہ (بن قدامہ) نے ابو حصین سے، انہوں نے اسود بن ہلال سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا، میں نے آپ کو جواب دیا تو آپ نے پوچھا: کیا جانتے ہو لوگوں پر اللہ کا حق کیا ہے؟ ..... پھر ان (سابقہ راویوں) کی حدیث کی طرح (حدیث سنائی۔)
اسودؒ کہتے ہیں میں نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ مجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا جانتے ہو اللہ کا لوگوں پر کیا حق ہے؟ پھر اوپر والی روایت بیان کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (144)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 147
Save to word اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا عمر بن يونس الحنفي ، حدثنا عكرمة بن عمار ، قال: حدثني ابو كثير ، قال: حدثني ابو هريرة ، قال: كنا قعودا حول رسول الله صلى الله عليه وسلم، معنا ابو بكر وعمر في نفر، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين اظهرنا، فابطا علينا، وخشينا ان يقتطع دوننا، وفزعنا فقمنا، فكنت اول من فزع، فخرجت ابتغي رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى اتيت حائطا للانصار لبني النجار، فدرت به، هل اجد له بابا؟ فلم اجد، فإذا ربيع، يدخل في جوف حائط من بئر خارجة، والربيع الجدول، فاحتفزت كما يحتفز الثعلب، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ابو هريرة؟ فقلت: نعم يا رسول الله، قال: ما شانك؟ قلت: كنت بين اظهرنا، فقمت فابطات علينا، فخشينا ان تقتطع دوننا، ففزعنا، فكنت اول من فزع، فاتيت هذا الحائط فاحتفزت كما يحتفز الثعلب، وهؤلاء الناس ورائي، فقال: يا ابا هريرة، واعطاني نعليه، قال: اذهب بنعلي هاتين، فمن لقيت من وراء هذا الحائط، يشهد ان لا إله إلا الله، مستيقنا بها قلبه، فبشره بالجنة، فكان اول من لقيت عمر، فقال: ما هاتان النعلان يا ابا هريرة؟ فقلت: هاتان نعلا رسول الله صلى الله عليه وسلم، بعثني بهما من لقيت، يشهد ان لا إله إلا الله، مستيقنا بها قلبه بشرته بالجنة، فضرب عمر بيده بين ثديي، فخررت لاستي، فقال: ارجع يا ابا هريرة، فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاجهشت بكاء، وركبني عمر، فإذا هو على اثري، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لك يا ابا هريرة؟ قلت: لقيت عمر فاخبرته بالذي بعثتني به، فضرب بين ثديي ضربة خررت لاستي، قال: ارجع، فقال له رسول الله: يا عمر، ما حملك على ما فعلت؟ قال: يا رسول الله، بابي انت وامي، ابعثت ابا هريرة بنعليك، " من لقي يشهد ان لا إله إلا الله، مستيقنا بها قلبه بشره بالجنة "، قال: نعم، قال: فلا تفعل، فإني اخشى ان يتكل الناس عليها فخلهم يعملون، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فخلهم.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا، فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا، وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَار لِبَنِي النَّجَّارِ، فَدُرْتُ بِهِ، هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا؟ فَلَمْ أَجِدْ، فَإِذَا رَبِيعٌ، يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةَ، وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ، فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَبُو هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قُلْتُ: كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا، فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا، فَفَزِعْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مِنْ فَزِعَ، فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِي، فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ، قَالَ: اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ: هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَخَرَرْتُ لِاسْتِي، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْهَشْتُ بُكَاءً، وَرَكِبَنِي عُمَرُ، فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قُلْتُ: لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ، فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي، قَالَ: ارْجِعْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: يَا عُمَرُ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟ قَال: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ، " مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُون، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَخَلِّهِمْ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف ایک جماعت (کی صورت) میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھے (اور کسی طرف چلے گئے)، پھر آپ نے ہماری طرف (واپسی میں) بہت تاخیر کر دی تو ہم ڈر گئے کہ کہیں ہمارے بغیر آپ کو کوئی گزند نہ پہنچائی جائے۔ اس پر ہم بہت گھبرائے اور (آپ کی تلاش میں نکل) کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں ہی گھبرایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈ نے نکلا یہاں تک کہ میں انصار کے خاندان بنو نجاز کے چار دیواری (فصیل) سے گھرے ہوئے ایک باغ تک پہنچا اور میں نے اس کے ارد گرد چکر لگایا کہ کہیں پر دروازہ مل جائے لیکن مجھے نہ ملا۔ اچانک پانی کی ایک گزر گاہ دکھائی دی جو باہر کے کنوئیں سے باغ کے اندر جاتی تھی (ربیع آب پاشی کی چھوٹی سی نہر کو کہتے ہیں) میں لومڑی کی طرح سمٹ کر داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ نے پوچھا: ابو ہریرہ ہو؟ میں نے عرض کی: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تمہیں کیا معاملہ درپیش ہے؟ میں نے عرض کی: آپ ہمارے درمیان تشریف فرماتھے، پھر وہاں سے اٹھ گئے، پھر آپ نے ہماری طرف (واپس) آنے میں دیر کر دی تو ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ آپ ہم سے کاٹ نہ دیے جائیں۔ اس پر ہم گھبرا گئے، سب سے پہلے میں گھبرا کر نکلا تو اس باغ تک پہنچا اور اس طرح سمٹ کر (اندر گھس) آیا ہوں جس طرح لومڑی سمٹ کر گھستی ہے اور یہ دوسرے لوگ میرے پیچھے (آرہے) ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ! او رمجھے اپنے نعلین (جوتے) عطا کیے اور ارشاد فرمایا: میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس چار دیواری کی دوسری طرف تمہیں جو بھی ایسا آدمی ملے جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہ کی شہادت دیتا ہو، اسے جنت کی خوش خبری سنا دو۔ سب سے پہلے میری ملاقات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انہوں نے نے کہا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ! (تمہاری ہاتھ میں) یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین (مبارک) ہیں۔ آپ نے مجھے یہ نعلین (جوتے) دے کر بھیجا ہے کہ جس کسی کو ملوں جو دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہ کی شہادت دیتا ہو، اسے جنت کی بشارت دے دوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نےمیرے سینے پر اپنے ہاتھ سے ایک ضرب لگائی جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا اور انہوں نے کہا: اے ابو ہریرہ! پیچھے لوٹو۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس عالم میں واپس آیا کہ مجھے رونا آرہا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ میرے پیچھے لگ کر چلتے آئے تو اچانک میرے عقب سے نمودار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) کہا: اے ابوہریرہ!تمہیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کی: میں نے عرض: میں عمر سے ملا اور آپ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا، میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب لگائی ہے جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا، اور مجھ سے کہا کہ پیچھے لوٹو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! تم نے جو کیا اس کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں! کیا آپ نے ابوہریرہ کو اس لیے نعلین دے کر بھیجا تھا کہ دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہکی شہادت دینے والے جس کسی کو ملے، اسے جنت کی بشارت دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: تو ایسا نہ کیجیے، مجھے ڈر ہے کہ لوگ بس اسی (شہادت) پر بھروسا کر بیٹھیں گے، انہیں چھوڑ دیں کہ وہ عمل کرتے رہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو ان کو چھوڑ دو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردا گرد بیٹھے تھے، ساتھ ابو بکراور عمر رضی اللہ عنہما بھی ایک جماعت کے ساتھ موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھے (اور کسی طرف چلے گئے) پھر آپ کی واپسی میں بہت تاخیر ہو گئی تو ہمیں ڈر پیدا ہوا کہ کہیں ہم سے علیحدہ آپؐ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے (ہماری عدم موجودگی میں دشمن وغیرہ کی طرف سے آپ کو کوئی گزند نہ پہنچے) اس پر ہم بہت گھبرائے اور ہم لوگ (آپ کی تلاش میں) نکل کھڑے ہوئے اور سب سے پہلےمیں ہی گھبرا کر آپ کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ انصار کے خاندان بنو النجار کے ایک باغ میں پہنچ گیا، جو چہار دیواری سے گھرا ہوا تھا، اور میں نے اس کے چاروں طرف چکر لگایا کہ اندر جانے کے لیے مجھے راستہ مل جائے، لیکن نہیں ملا۔ اچانک ایک نالا دکھائی دیا جو باہر کے کنویں سے باغ کے اندر جاتا تھا، ربیع جدول (نالے) کو کہتے ہیں۔ میں لومڑی کی طرح سمٹ اور سکڑ کر اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپؐ نے پوچھا: ابو ہریرہ! میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں ہی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: تم کیسے آئے؟ (کیا بات ہے؟) میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمارے درمیان تشریف رکھتے تھے، پھر وہاں سے اٹھ کر چلے آئے، پھر دیر تک آپؐ کی واپسی نہیں ہوئی تو ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں دشمن آپؐ کو تنہا دیکھ کر ایذا نہ پہنچائے، تو اس پر ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا، تو میں اس باغ تک پہنچا اور لومڑی کی طرح سکڑ کے (اندر گھس آیا ہوں) اور دوسرے لوگ میرے پیچھے آرہے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! اور مجھے اپنے نعلین (جوتے) مبارک عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا: میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس باغ سے باہر جو آدمی بھی ایسا ملے، جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی شہادت دیتا ہو، اس کو جنّت کی خوش خبری سنادو! تو سب سے پہلے میری ملاقات عمر بن الخطاب ؓ سے ہوئی، انھوں نے مجھ سے پوچھا: ابو ہریرہ! تمھارے ہاتھ میں یہ دو جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا: یہ نعلین مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں، آپؐ نے یہ دونوں جوتیاں مجھے دے کر بھیجا ہے کہ جو کوئی بھی دل کے اطمینان کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی شہادت دیتا ہو، مجھے ملے، میں اس کو جنّت کی بشارت دے دوں۔ ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں: پس عمر نے میرے سینے پر ایک ہاتھ مارا جس سے میں اپنی سرینوں کے بَل پیچھے کو گر پڑا، اور مجھ سے انھوں نے کہا: اے ابو ہریرہ! پیچھے کو لوٹو۔ میں روتی صورت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا اور عمر رضی اللہ عنہ بھی میرے پیچھے پیچھے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے ابو ہریرہ! تمھیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: عمرؓ مجھے ملے تھے، آپؐ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا، میں نے انھیں وہ بتلایا، تو انھوں نے میرے سینے پر ایک تھپڑ مارا، جس سے میں اپنی سرین کے بَل گر پڑا اور مجھ سے کہا کہ پیچھے لوٹو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو مخاطب کر کے فرمایا: عمر! تم نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، کیا آپؐ نے ابوہریرہ کو اپنے نعلین مبارک دے کر اس لیے بھیجا تھا کہ جو کوئی بھی دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی شہادت دینے والا ان کو ملے، وہ اس کو جنّت کی بشارت دے دیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! (میں نے یہی کہہ کر بھیجا تھا) عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: تو ایسا نہ کیجیے، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں لوگ بس اس شہادت پر بھروسا کر کے (سعی وعمل سے بے پروا ہو کر) نہ بیٹھ جائیں، لہذا انھیں عمل کرنے دیجیے۔ تو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ان کو عمل کرنے دو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14843)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 148
Save to word اعراب
حدثنا إسحاق بن منصور ، اخبرنا معاذ بن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن قتادة ، قال: حدثنا انس بن مالك ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم ومعاذ بن جبل، رديفه على الرحل، قال: يا معاذ، قال: لبيك رسول الله وسعديك، قال: يا معاذ، قال: لبيك رسول الله وسعديك، قال: يا معاذ، قال: لبيك رسول الله وسعديك، قال: " ما من عبد يشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا عبده ورسوله، إلا حرمه الله على النار "، قال: يا رسول الله، افلا اخبر بها الناس فيستبشروا؟ قال: إذا يتكلوا، فاخبر بها معاذ عند موته تاثما.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: يَا مُعَاذ، قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: يَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: يَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أُخْبِرُ بِهَا النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا؟ قَالَ: إِذًا يَتَّكِلُوا، فَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.
قتادہ نے کہا: ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے، جب وہ پالان پر آپ کے پیچھے سوار تھے، فرمایا: اے معاذ! انہوں نےعرض کی: میں بار بار حاضر ہوں اللہ کے رسول! میرے نصیب روشن ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرمایا: اے معاذ! انہوں نے عرض کی: میں بار بار حاضر ہوں اللہ کے رسول! زہے نصیب۔ پھر آپ نے فرمایا: اے معاذ! انہوں نے عرض کی، میں ہر بار حاضر ہوں اللہ کے رسول! میری خوش بختی۔ (اس پر) آپ نے فرمایا: کوئی بندہ ایسا نہیں جو (سچے دل سے) شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں مگر اللہ ایسے شخص کو دوزخ پر حرام کر دیتا ہے۔ حضرت معاذ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں تاکہ وہ سب خوش ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا: پھر وہ اسی پر بھروسا کر کے بیٹھ جائیں گے۔ چنانچہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے (کتمان علم کے) گناہ کے خوف سے اپنی موت کے وقت یہ بات بتائی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) کو جب کہ وہ پالان پر آپؐ کے پیچھے سوار تھے، پکارا: اے معاذ! انھوں نے عرض کیا: لبّیك یا رسول اللہ و سعدیك، تین دفعہ ایسا ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی سچّے دل سے شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے رسول ہیں، تو اللہ نے دوزخ پر ایسے شخص کو حرام کر دیا ہے۔ حضرت معاذ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں تاکہ وہ سب خوش ہو جائیں۔ آپؐ نے فرمایا: پھر وہ اسی پر بھروسا کر کے بیٹھ جائیں گے۔ پھر حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) نے کتمان علم کے گناہ کے خوف سے اپنے آخری وقت میں یہ حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى العلم من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية ان لا يفهموا برقم (128) انظر ((التحفة)) برقم (1363)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 149
Save to word اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، قال: حدثنا ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: حدثني محمود بن الربيع ، عن عتبان بن مالك ، قال: قدمت المدينة فلقيت عتبان، فقلت: حديث بلغني عنك، قال: اصابني في بصري بعض الشيء، فبعثت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، اني احب ان تاتيني فتصلي في منزلي، فاتخذه مصلى، قال: فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، ومن شاء الله من اصحابه، فدخل وهو يصلي في منزلي، واصحابه يتحدثون بينهم، ثم اسندوا عظم ذلك، وكبره إلى مالك بن دخشم، قالوا: ودوا انه دعا عليه فهلك، وودوا انه اصابه شر، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، وقال: اليس يشهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله؟ قالوا: إنه يقول ذلك وما هو في قلبه، قال: " لا يشهد احد، ان لا إله إلا الله واني رسول الله، فيدخل النار او تطعمه "، قال انس: فاعجبني هذا الحديث، فقلت لابني: اكتبه، فكتبه.حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عِتْبَانَ، فَقُلْتُ: حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكَ، قَالَ: أَصَابَنِي فِي بَصَرِي بَعْضُ الشَّيْءِ، فَبَعَثْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنِّي أُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَنِي فَتُصَلِّيَ فِي مَنْزِلِي، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ شَاءَ اللَّهُ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَدَخَلَ وَهُوَ يُصَلِّي فِي مَنْزِلِي، وَأَصْحَابُهُ يَتَحَدَّثُونَ بَيْنَهُمْ، ثُمَّ أَسْنَدُوا عُظْمَ ذَلِكَ، وَكِبْرَهُ إِلَى مَالِكِ بْنِ دُخْشُمٍ، قَالُوا: وَدُّوا أَنَّهُ دَعَا عَلَيْهِ فَهَلَكَ، وَوَدُّوا أَنَّهُ أَصَابَهُ شَرٌّ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، وَقَالَ: أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالُوا: إِنَّهُ يَقُولُ ذَلِكَ وَمَا هُوَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ: " لَا يَشْهَدُ أَحَدٌ، أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَيَدْخُلَ النَّارَ أَوْ تَطْعَمَهُ "، قَالَ أَنَسٌ: فَأَعْجَبَنِي هَذَا الْحَدِيثُ، فَقُلْتُ لِابْنِي: اكْتُبْهُ، فَكَتَبَهُ.
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے محمود بن ریبع رضی اللہ عنہ نے حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی۔ (محمود رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ میں مدینہ آیا تو عتبان رضی اللہ عنہ کو ملا اور میں نےکہا: ایک حدیث مجھے آپ کے حوالے سے پہنچی ہے۔ حضرت عتبان نے کہا: میری آنکھوں کو کوئی بیماری لاحق ہو گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ اے اللہ کے رسول! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ میرے پاس تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسی (جگہ) کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں میں سے جن کو اللہ نے چاہا، تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوئے، آپ نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے ساتھی آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ انہوں نے زیادہ اور بڑی بڑی باتیں مالک بن دخشم کے ساتھ جوڑ دیں، وہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حق میں بد دعا فرمائیں اور وہ ہلاک ہو جائے اور ان کی خواہش تھی کہ اس پر کوئی آفت آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور پوچھا: کیا وہ اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ صحابہ کرام نے جواب دیا: وہ (زبان سے) یہ کہتا ہے لیکن اس کے دل میں یہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی ایسا شخص نہیں جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو پھر وہ آگ میں داخل ہو یا آگ اسے اپنی خوراک بنا لے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی (پسند آئی) تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا: اسے لکھ لو، اس نے یہ حدیث لکھ لی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت سنائی۔ محمود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں مدینہ آیا اورعتبان رضی اللہ عنہ کو ملا تو میں نے کہا: آپ کی ایک روایت مجھے پہنچی ہے (وہ مجھے براہ ِراست سنائیے) عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا: میری آنکھوں میں کچھ تکلیف پیدا ہوئی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ حضور میری تمنا ہے آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی جگہ نماز ادا فرمائیں، تاکہ میں اس کو نماز گاہ بنا لوں (وہاں نماز پڑھا کروں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جن ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ بھی ساتھ تھے۔ سو آپؐ داخل ہو کر میرے گھرمیں نماز پڑھنےلگے اور آپ کے ساتھی آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتوں کا (موضوع منافقوں کے اعمالِ بد اور ان کی بری حرکات تھیں) اکثر اور بڑا موضوع مالک بن دخشم کی حرکات تھیں۔ صحابہ نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حق میں بد دعا فرمائیں، وہ مر جائے اور خواہش کی کہ اسے کوئی آفت پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور پوچھا: کیا وہ اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ صحابہ کرام ؓ نے جواب دیا: وہ زبان سے کہتا ہے لیکن دل میں یہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بھی اس بات کی گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا نہ اسے جہنم کھائے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی (پسند آئی) تو میں نے اپنے بیٹے کو کہا اسے لکھ لو، اس نے لکھ لیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الصلاة، باب: اذا دخل بيتا يصلي حيث شاء، او حيث امر، ولا يتجسس برقم (424) وفي باب: فى المساجد فى البيوت برقم (425) وفي الجماعة والامامة، باب: الرخصة فى المطر والعلة ان يصلى فى رحله برقم (667) وفى باب: زار الامام قـومـا فـامهم برقم (686) وفى كتاب: صفة الصلاة، باب: يسلم حين يسلم الامام مختصراً برقم (838) وفي باب: من لم يرد السلام على الامام، باب: يسلم حين يسلم الامام مختصراً برقم (838) وفي باب: من لم يرد الاسلام على الامام، واكتفى بتسليم الصلاة برقم (840) وفي التطوع، باب: صلاة النوافل جماعة برقم (1186) مطولا وفي المغازي، باب: شهود الملائكة بدرا برقم (4009) مطولا وفى الاطعمة، باب: الخزيرة برقم (5401) وفي الرقاق، باب: العمل الذى يبتغي به وجه الله مختصراً برقم (6423) وفى استتابة المرتدين والمعائدين، مختصرا برقم (6938) والمولف (مسلم) فى ((صحيحه)) فى المساجد ومواضع الصلاة، باب: الرخصة فى التخلف عن الجماعة لعذر برقم (1494) وبرقم (1595 و 1496) والنسائي فى ((المجتبى من السنن)) فى المامة، باب: امامة الاعمى 80/2 وفي السهود، باب: تسليم الماموم حين يسلم الامام 64/3-65 وابن ماجه فى ((سننه)) فى المساجد والجماعات، باب: المساجد فى الدور مطولا برقم (754) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (9750)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 150
Save to word اعراب
حدثني ابو بكر بن نافع العبدي ، حدثنا بهز ، حدثنا حماد ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال: حدثني عتبان بن مالك ، انه عمي، فارسل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: تعال، فخط لي مسجدا، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجاء قومه ونعت رجل منهم، يقال له: مالك بن الدخشم، ثم ذكر نحو حديث سليمان بن المغيرة.حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِتْبَانُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ عَمِيَ، فَأَرْسَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَال: تَعَالَ، فَخُطَّ لِي مَسْجِدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَاءَ قَوْمُهُ وَنُعِتَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُمِ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ.
حماد نے کہا: ہمیں ثابت نےحضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے عتبان بن مالک نے بتایا کہ وہ نابینا ہو گئے تھے، اس وجہ سے انہوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ تشریف لائیں اور میرے لیے مسجد کی اکی جگہ متعین کر دیں (تاکہ میں اس میں نماز پڑھ سکوں) تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان (عتبان) کی قوم کےلوگ بھی آگئے، ان میں سے ایک آدمی، جسے مالک بن دخیشم کہا جاتا تھا، غائب رہا.... اس کے بعد حماد نے بھی (ثابت کے دوسرے شاگرد) سلیمان بن مغیرہ کی طرح روایت بیان کی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایا: کہ میں نابینا ہو گیا، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا (تشریف لا کرمیرے مکان میں) مسجد کی ایک جگہ متعین کر دیجیے (تاکہ میں اس میں نماز پڑھ سکوں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور عتبان رضی اللہ عنہ کی قوم کے لوگ بھی آگئے، ان میں ایک آدمی جسے مالک بن دحشم کہتے تھے غائب رہا۔ اس کے بعد سلیمان بن مغیرہ کی حدیث کی طرح روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (148)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.