كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل The Book of Faith 1. باب بَيَانِ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ وَوُجُوبِ الْإِيمَانِ بِإِثْبَاتِ قَدَرِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَبَيَانِ الدَّلِيلِ عَلَى التَّبَرِّي مِمَّنْ لَا يُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ وَإِغْلَاظِ الْقَوْلِ فِي حَقِّهِ. باب: ایمان اور اسلام اور احسان کا بیان اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان کا بیان۔ Chapter: Explaining Al-Iman (Faith), Al-Islam, and Al-Ihsan, and The Obligations of Al-Iman With Affirmation of The Qadar of Allah, Glorious And Most High is He. And Explaining The Evidence For Declaring One's Innocence Of One Who Does Not Believe In Al-Qadar, And Having A Harsh View Of His Case قال ابو الحسين مسلم بن الحجاج القشيري رحمه الله: بعون الله نبتدئ وإياه نستكفي، وما توفيقنا إلا بالله جل جلاله. حدثني ابو خيثمة زهير بن حرب ، حدثنا وكيع ، عن كهمس ، عن عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر . ح وحدثنا وهذا حديثه، عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا كهمس ، عن ابن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، قال: كان اول من قال في القدر بالبصرة: معبد الجهني، فانطلقت انا وحميد بن عبد الرحمن الحميري، حاجين او معتمرين، فقلنا: لو لقينا احدا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالناه عما يقول هؤلاء في القدر، فوفق لنا عبد الله بن عمر بن الخطاب داخلا المسجد، فاكتنفته انا، وصاحبي، احدنا عن يمينه والآخر عن شماله، فظننت ان صاحبي سيكل الكلام إلي، فقلت: ابا عبد الرحمن، إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرءون القرآن، ويتقفرون العلم، وذكر من شانهم، وانهم يزعمون ان لا قدر، وان الامر انف، قال: فإذا لقيت اولئك، فاخبرهم اني بريء منهم، وانهم برآء مني، والذي يحلف به عبد الله بن عمر، لو ان لاحدهم، مثل احد ذهبا، فانفقه ما قبل الله منه، حتى يؤمن بالقدر، ثم قال: حدثني ابي عمر بن الخطاب ، قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، إذ طلع علينا رجل شديد، بياض الثياب، شديد، سواد الشعر، لا يرى عليه اثر السفر، ولا يعرفه منا احد، حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاسند ركبتيه إلى ركبتيه، ووضع كفيه على فخذيه، وقال: يا محمد، اخبرني عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الإسلام ان تشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا"، قال: صدقت، قال: فعجبنا له يساله، ويصدقه، قال: فاخبرني عن الإيمان، قال:" ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره"، قال: صدقت، قال: فاخبرني عن الإحسان، قال:" ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه، فإنه يراك"، قال: فاخبرني عن الساعة، قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، قال: فاخبرني عن امارتها، قال:" ان تلد الامة ربتها، وان ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء، يتطاولون في البنيان"، قال: ثم انطلق فلبثت مليا، ثم قال لي: يا عمر اتدري من السائل؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: فإنه جبريل، اتاكم يعلمكم دينكم.قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْقُشَيْرِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ: بِعَوْنِ اللَّهِ نَبْتَدِئُ وَإِيَّاهُ نَسْتَكْفِي، وَمَا تَوْفِيقُنَا إِلَّا بِاللَّهِ جَلَّ جَلَالُهُ. حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ كَهْمَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ . ح وحَدَّثَنَا وَهَذَا حَدِيثُهُ، عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ قَالَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ: مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ، حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ، فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَاءِ فِي الْقَدَرِ، فَوُفِّقَ لَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ دَاخِلًا الْمَسْجِدَ، فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا، وَصَاحِبِي، أَحَدُنَا عَنْ يَمِينِهِ وَالآخَرُ عَنْ شِمَالِهِ، فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَن، إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ، وَذَكَرَ مِنْ شَأْنِهِمْ، وَأَنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ، وَأَنَّ الأَمْرَ أُنُفٌ، قَالَ: فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ، وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ، مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ، حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ، بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ، سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيمَانِ، قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ، قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ:" أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ، يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ"، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ. کہمس سے ا بن بریدہ سے، انہوں نے یحیی بن یعمر سےروایت کی، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر (سے انکار) کی بات کی، معبد جہنی تھا میں (یحیی) اور حمید بن عبد الرحمن خمیری حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے، ہم نے (آپس میں) کہا: کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان (آج کل کے) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے۔ میں اور میرے ساتھ نے ان کے درمیان میں لے لیا، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو (کامعاملہ) میرے سپرد کرے گا، چنانچہ میں نے عرض کی: اے ابو عبدالرحمن! (یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں (اور ان کے حالات بیان کیے) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں، (ہر) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے (پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے، نہ اللہ کا اس کاعلم ہے۔) ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ اس (ذات) کی قسم جس (کے نام) کے ساتھ عبد اللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے! اگر ان میں سے کسی کو پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ (بھی) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کوقبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے، پھر کہا: مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا: ایک دن ہم رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اوربا ل انتہائی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے، اور اپنے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی را نوں پر رکھ دیے، اور کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، نماز کا اہتمام کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ (طے کرنے) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو۔“ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے پوچھتا ہے اور (خود ہی) آپ کی تصدیق کرتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخری دن (یوم قیامت) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔“ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ (پھر) اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ اس نے کہا: تومجھے قیات کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ”جس سے اس (قیامت) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔“ اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامات بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ” (علامات یہ ہیں کہ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، محتاج، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےکہا: پھر وہ سائل چلا گیا، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: ”اے عمر!تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟“ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبرئیل رضی اللہ عنہ تھے، تمہارے پائے تھے، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے۔“ مجھے ابو خیثمہ زہیر بن حرب ؒ نے وکیع کے واسطے سے کہمس سے سنایا، کہمس کہتے ہیں مجھے عبداللہ بن بریدہ ؒ نے یحییٰ بن یعمر ؒ سے نقل کیا، نیز امام مسلم ؒ کا قول ہے ہمیں عبیداللہ بن معاذ العنبری ؒ نے اپنے باپ کے واسطے سے کہمس ؒ سے بیان کیا اور یہ الفاظ عنبری ؒ کے ہیں (حدیث عنبری کی نقل کی گئی ہے) کہمسؒ، ابنِ بریدہ کے واسطے سے یحییٰ بن یعمرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلےمسئلہ تقدیر پر گفتگو کا آغاز معبد الجُہنی نے کیا، میں (یحییٰ) اور حمید بن عبدالرحمٰن الحمیری ؒ حج یا عمرہ کے ارادے سے نکلے ہم نے آپس میں کہا اے کاش! ہماری ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہو جائے تو ہم اس سے (یہ لوگ جو کچھ تقدیر کے بارے میں کہہ رہے ہیں) اس کے بارے میں پوچھ لیں۔ تو اتفاقاً ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر خطاب ؓسے مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ہوگئی میں اور میرے ساتھی نے انھیں گھیر لیا ہم میں سے ایک ان کے دائیں اور دوسرا ان کے بائیں تھا۔ میں نے خیال کیا میرا ساتھی یقیناً گفتگو کا معاملہ میرے ہی سپرد کرے گا چنانچہ میں نے پوچھا: اے ابو عبدالرحمٰن! (یہ عبداللہ بن عمر ؓ کی کنیت ہے) واقعہ یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو قرآن کی قرات کرتے ہیں اور علم کے متلاشی ہیں (اس طرح)ان کے حالات بیان کیے ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیرکا کوئی مسئلہ نہیں۔ ہر کام نئے سرے سے ہو رہا ہے (اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس کا علم نہیں ہے) حضرت ابنِ عمر رضی الله عنه نے فرمایا: جب تیری ان لوگوں سے ملاقات ہوتو انھیں بتانا، میں ان سے بری ہوں (ان سے میرا کوئی تعلق نہیں) اور ان کامجھ سے کوئی تعلق نہیں، عبد اللہ بن عمر رضی الله عنها جس ذات کی قسم اٹھاتا ہےاس کی قسم ان میں سے کسی ایک کے پاس اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو، جسے وہ خرچ کر دے، اللہ تعالیٰ اس سے قبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے، پھر کہا: مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی الله عنه نے بتایا کہ ایک دن ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے اسی اثناء میں اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے اس پر سفر کے اثرات دکھائی نہ دیتے تھےاور ہم میں سے کوئی ایک بھی اسے جانتا پہچانتا نہ تھا حتی کہ وہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے اور اپنی ہتھیلیاں اپنی رانوں پر رکھ لیں (جیسے طالب علم استاد کے سامنے بیٹھتا ہے) اور پوچھا اے محمدؐ! مجھے اسلام کے بارے میں بتلائیے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں (بندگی اور عبادت کے لائق کوئی نہیں) اور محمدؐ اس کے رسول ہیں۔ نماز کا اہتمام کرے، زکوٰۃ ادا کرتا رہے، رمضان کے روزے رکھے، بیت اللہ کا حج کرے اگر اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو۔“ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر رضی الله عنه کہتے ہیں: ہمیں اس کی اس بات پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا ہے اور پھر (خود ہی) تصدیق کرتا ہے۔ اس نے سوال کیا: مجھے ایمان کی حقیقت سے آگاہ کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن یعنی قیامت کو مان لے اور تقدیر کو خیر کی ہو یا شر کی، تسلیم کر لے۔“ اس نے کہا: آپؐ نے درست فرمایا۔ اس نے پوچھا: پس مجھے احسان کی حقیقت کی خبر دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ کی بندگی و طاعت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے حالانکہ تو اسےنہیں دیکھ رہا یقیناً وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ اس نے سوال کیا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”جس سے قیامت کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔“ اس نےکہا: تو مجھے اس کی کچھ علامات (نشانیاں) ہی بتا دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور تو دیکھے گا ننگے پاؤں، ننگے بدن والے، محتاج، بکریوں کے چرواہے عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔“ حضرت عمر رضی الله عنه کا بیان ہے: پھر وہ سائل چلا گیا تو میں کچھ عرصہ ٹھہرا رہا بعد میں مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے عمر! تجھے معلوم ہے سائل کون تھا؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی زیادہ جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبرئیل ؑ تھے تمھارے پاس تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداود في ((سننه))، باب في القدر برقم (4695) والترمذي في ((جامعه)) في الايمان، باب: ماجاء في وصف جبريل للنبي صلى الله عليه وسلم الايمان والاسلام برقم (2610) والنسائي في ((المجتبى)) 97/8-101 فی الایمان، باب: نعت الاسلام برقم (5005) وابن ماجه في ((سننه)) في المقدمة، باب: في الايمان برقم (63) - انظر ((التحفة)) برقم (10572) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (2)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
کہمس کے بجائے مطر وراق نےعبد اللہ بن بریدہ سے، انہوں نے یحیی بن یعمر سے نقل کیا کہ جب معبد (جہنی) نے تقدیر کے بارے میں وہ (سب) کہا جو کہا، تو ہم نے اسے سخت ناپسند کیا (یحییٰ نے کہا) میں اور حمید بن عبد الرحمٰن حمیری نے حج کیا .... اس کے بعد انہوں نے کہمس کے واسطے سے بیان کردہ حدیث کے مطابق حدیث بیان کی، البتہ الفاظ میں کچھ کمی بیشی ہے مجھے حماد بن زید ؒ کےواسطہ سے مطر الوراق ؒ نے بیان کیا، مطر نے عبد اللہ بن بریدہ ؒ کے واسطے سے یحییٰ بن یعمر ؒ سے نقل کیا کہ جب معبد نے تقدیر کے بارے میں جو گفتگو چاہی کی۔ ہم نے اسے بہت عجیب خیال کیا تو میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری ؒ نے حج کیا۔ امام مسلم ؒ کے تینوں اساتذہ نے کہمس ؒ کی روایت اس کی سند سے بیان کی اور الفاظ میں کچھ کمی بیشی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انظر الحديث السابق برقم (93)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
(عبد اللہ بن بریدہ کے ایک تیسرے شاگرد) عثمان بن غیاث نے یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبد الرحمٰن دونوں سے روایت کی، دونوں نےکہا: ہم عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملے اور ہم سے تقدیر کی بات کی اور وہ لوگ (منکرین تقدیر) جو کچھ کہتے ہیں، اس کا ذکر کیا۔ اس کے بعد (عثمان بن غیاث نے) سابقہ راویوں کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی۔ اس روایت میں کچھ الفاظ زیادہ ہیں اور کچھ انہوں نے کم کیے ہیں۔ عبداللہ بن بریدہ ؒ نےٰ یحییٰ بن یعمر ؒ اور حمید بن عبدالرحمٰن ؒ دونوں سے نقل کیا کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما کو ملے اور ہم نے تقدیر کا تذکرہ کیا اور منکرینِ تقدیرکا تذکرہ کیا اور منکرینِ تقدیر کا قول نقل کیا۔ محمد بن حاتم نے بھی امام صاحب کے مذکورہ بالا اساتذہ کی طرح حضرت عمر رضی الله عنه سے روایت بیان کی اس میں کچھ اضافہ ہے اور کچھ کمی بھی کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في السنة، باب: في القدر برقم (4696) انظر ((التحفة)) برقم (10516 و 10572) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (2)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معتمر کے والد (سلیمان بن طرخان) نے یحییٰ بن یعمر سے، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی جس طرح مذکورہ اساتذہ نے روایت کی۔ معتمرؒ نے اپنے باپ کے حوالہ سے یحییٰ بن یعمرؒ کی عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے حضرت عمر رضی الله عنه کی روایت بیان کی جو مذکورہ بالا اساتذہ کی حدیث جیسی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه في الحديث قبل السابق برقم (93)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|