كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل The Book of Faith 94. باب الدَّلِيلِ عَلَى دُخُولِ طَوَائِفَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلاَ عَذَابٍ: باب: مسلمانوں کے ایک گروہ کا بغیر حساب و عذاب کے جنت میں داخل ہونے کا بیان۔ Chapter: The Evidence that groups of Muslims will enter Paradise without being called to account, and without being punished ربیع بن مسلم نے محمد بن زیاد کے واسطے سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے ستر ہزار (افراد) بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔“ ایک آدمی نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کردے، آپ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! اسے ان میں شامل کر۔“ پھر ایک اور کھڑا ہو گیا اور کہا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے وہ مجھے بھی ان شامل کر دے۔ آپ نے جواب: ”عکاشہ اس معاملے میں تم سے سبقت لے گئے۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔“ تو ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اللہ سے دعا کیجیے! کہ وہ مجھے بھی ان میں شریک کردے! آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اسے بھی ان میں سے کر دے۔ پھر دوسرا شخص کھڑا ہوا اور کہا اے اللہ کے رسول ؐ! اللہ سے دعا کیجیے! کہ مجھے بھی اللہ ان میں سے کر دے! آپؐ نے جواب دیا: ”عکاشہؓ تم سے اس کے لیےسبقت لے جا چکا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14370)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ششعبہ نے کہا: میں نے محمد بن زیاد سے حدیث سنی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ سے سنی، انہوں نےکہا: میں نےحضرت ابو ہریرہ سے سنی، انہوں نےکہا: میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے...... (آگے) ربیع کی حدیث کی طرح (ہے۔) امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور سند سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14398)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، قال: اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال: حدثني سعيد بن المسيب ، ان ابا هريرة حدثه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " يدخل من امتي زمرة هم سبعون الفا، تضيء وجوههم إضاءة القمر ليلة البدر، قال ابو هريرة: فقام عكاشة بن محصن الاسدي، يرفع نمرة عليه، فقال: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم اجعله منهم، ثم قام رجل من الانصار، فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ادع الله ان يجعلني منهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سبقك بها عكاشة ".حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي زُمْرَةٌ هُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا، تُضِيءُ وُجُوهُهُمْ إِضَاءَةَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ الأَسَدِيُّ، يَرْفَعُ نَمِرَةً عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ، ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ ". سعید بن مسیب نے حدیث سنائی کہ انہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نےحدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت کا ایک گروہ جنت میں داخل ہو گا، وہ ستر ہزار افراد ہوں گے، ان کے چہرے اس طرح چمکتے ہوں گے جس طرح چودھویں رات کو ماہ کامل چمکتا ہے۔“ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: (اس پر) عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ اپنی سرخ، سفید اور سیاہ دھاریوں والی چادر بلند کرتے ہوئے اٹھے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اسے ان میں سے کردے۔“ پھر انصاری کھڑا ہو ا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمایئے کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں عکاشہ تم سے سبقت لے گئے۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت کا ستر ہزار (70000) کا ایک گروہ جنت میں داخل ہوگا، ان کے چہرے چودہویں رات کے ماہِ کامل کی طرح چمک رہے ہوں گے۔“ ابو ہریرہ ؓ نے بتایا: عکاشہ بن محصن اسدی ؓ اپنی دھاری دار لوئی اٹھائے ہوئے اٹھے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اللہ سے دعا فرمائیے! کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! اسے بھی ان میں سے کر دے۔“ پھر ایک انصاری آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمائیے! کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے عکاشہ پہل کر گیا۔“ یعنی: وہ تم سے سبقت لے گیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب: يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب برقم (6542) انظر ((التحفة)) برقم (13332)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
(سعید بن مسیب کے بجائے) ابو یونس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت سے ستر ہزار افراد جنت میں داخل ہوں گے، چاند کی سی صورت میں، ان کا ایک گروہ ہو گا۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار افراد جنت میں داخل ہوں گے، ایک ہی گروہ چاند سی صورت و شکل پر۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (15468)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا يحيى بن خلف الباهلي ، حدثنا المعتمر ، عن هشام بن حسان ، عن محمد يعني ابن سيرين ، قال: حدثني عمران ، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " يدخل الجنة من امتي سبعون الفا بغير حساب، قالوا: ومن هم يا رسول الله؟ قال: هم الذين لا يكتوون، ولا يسترقون، وعلى ربهم يتوكلون، فقام عكاشة، فقال: ادع الله ان يجعلني منهم، قال: انت منهم، قال: فقام رجل، فقال: يا نبي الله، ادع الله ان يجعلني منهم، قال: سبقك بها عكاشة.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ سِيرِينَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِمْرَانُ ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ، قَالُوا: وَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: هُمُ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، فَقَامَ عُكَّاشَةُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: أَنْتَ مِنْهُمْ، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ. محمد بن سیرین نے کہا کہ حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزا اشخاص حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔“ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”وہ ایسے لوگ ہیں جو داغنے کے عمل سے علاج نہیں کراتے، نہ دم ہی کراتے ہیں اور اپنے رب پر کامل بھروسہ کرتے ہیں۔“ عکاشہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان میں (شامل) کر دے۔آپ نے فرمایا: ”تم ان میں سے ہو۔“ (عمران رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا او رکہنے لگا: اے اللہ کے نبی! اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے (بھی) ان میں (شامل) کر دے، آپ نے فرمایا: ”اس میں عکاشہ تم سے سبقت لے گئے۔“ حضرت عمران ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار (70000) اشخاص بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے۔“ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو داغ نہیں لگاتے، نہ دم کرواتے ہیں اور اپنے رب پر اعتماد کرتے ہیں۔“ تو عکاشہؓ کھڑے ہو کر کہنے لگے: اللہ سے دعا فرمائیے! کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان میں سے ہے۔“ تو ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے نبی! اللہ سے دعا کیجیے! کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (10841)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حکم بن اعرج نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میری امت کے ستر ہزار لوگ حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔“ صحابہ کرام نے پوچھا: ا ے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”وہ ایسے لوگ ہیں جو دم نہیں کرواتے، شگون نہیں لیتے، داغنے کے ذریعے سے علاج نہیں کرواتے او راپنے رب پر پورا بھروسہ کرتے ہیں۔“ عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار افراد بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔“ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ جو دم نہیں کرواتے، نہ بد شگونی پکڑتے ہیں اور نہ داغ لگواتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (10819)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي حازم ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ليدخلن الجنة من امتي سبعون الفا، او سبع مائة الف، لا يدري ابو حازم ايهما، قال: متماسكون، آخذ بعضهم بعضا، لا يدخل اولهم حتى يدخل آخرهم، وجوههم على صورة القمر ليلة البدر ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا، أَوْ سَبْعُ مِائَةِ أَلْفٍ، لَا يَدْرِي أَبُو حَازِمٍ أَيَّهُمَا، قَالَ: مُتَمَاسِكُونَ، آخِذٌ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، لَا يَدْخُلُ أَوَّلُهُمْ حَتَّى يَدْخُلَ آخِرُهُمْ، وُجُوهُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ ". حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد (ابو حازم کو شک ہے کہ سہل رضی اللہ عنہ نے کون سا عدد بتایا) اس طرح جنت میں داخل ہوں گے کہ وہ یکجا ہوں گے، ایک دوسرےکو پکڑے ہوئے، ان میں سے پہلا فرد اس وقت تک داخل نہیں ہو گا جب تک آخری فرد (بھی ساتھ ہی) داخل نہ ہو گا، اکٹھے ہی (جنت کے وسیع دروازے سے) اندر جائیں گے۔ ان کے چہرے چو دھویں رات کے چاندجیسے ہوں گے۔“ حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد (ابو حازم کو شک ہے، کہ سہل نے کون سا عدد بتایا) جنت میں اس حال میں داخل ہوں گے، کہ وہ ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے اکٹھے ہوں گے۔ ان میں پہلا فرد اس وقت تک داخل نہیں ہو گا جب تک آخری فرد داخل نہیں ہو گا، ان کے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب: صفة الجنة والنار برقم (6554) انظر ((التحفة)) برقم (4715) 366»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا سعيد بن منصور ، حدثنا هشيم ، اخبرنا حصين بن عبد الرحمن ، قال: " كنت عند سعيد بن جبير ، فقال: ايكم راى الكوكب الذي انقض البارحة؟ قلت: انا، ثم قلت: اما إني لم اكن في صلاة، ولكني لدغت، قال: فماذا صنعت؟ قلت: استرقيت، قال: فما حملك على ذلك؟ قلت: حديث حدثناه الشعبي ، فقال: وما حدثكم الشعبي؟ قلت: حدثنا عن بريدة بن حصيب الاسلمي ، انه قال: لا رقية إلا من عين او حمة، فقال: قد احسن من انتهى إلى ما سمع، ولكن حدثنا ابن عباس ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " عرضت علي الامم، فرايت النبي ومعه الرهيط، والنبي ومعه الرجل والرجلان، والنبي ليس معه احد، إذ رفع لي سواد عظيم، فظننت انهم امتي، فقيل لي: هذا موسى عليه السلام وقومه، ولكن انظر إلى الافق، فنظرت، فإذا سواد عظيم، فقيل لي: انظر إلى الافق الآخر، فإذا سواد عظيم، فقيل لي: هذه امتك، ومعهم سبعون الفا يدخلون الجنة بغير حساب، ولا عذاب، ثم نهض فدخل منزله فخاض الناس في اولئك الذين يدخلون الجنة بغير حساب، ولا عذاب، فقال بعضهم: فلعلهم الذين صحبوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال بعضهم: فلعلهم الذين ولدوا في الإسلام ولم يشركوا بالله، وذكروا اشياء، فخرج عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما الذي تخوضون فيه؟، فاخبروه، فقال: هم الذين لا يرقون، ولا يسترقون، ولا يتطيرون، وعلى ربهم يتوكلون، فقام عكاشة بن محصن، فقال: ادع الله ان يجعلني منهم، فقال: انت منهم؟، ثم قام رجل آخر، فقال: ادع الله ان يجعلني منهم، فقال: سبقك بها عكاشة،حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: " كُنْتُ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ رَأَى الْكَوْكَبَ الَّذِي انْقَضَّ الْبَارِحَةَ؟ قُلْتُ: أَنَا، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَكُنْ فِي صَلَاةٍ، وَلَكِنِّي لُدِغْتُ، قَالَ: فَمَاذَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: اسْتَرْقَيْتُ، قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟ قُلْتُ: حَدِيثٌ حَدَّثَنَاهُ الشَّعْبِيُّ ، فَقَالَ: وَمَا حَدَّثَكُمْ الشَّعْبِيُّ؟ قُلْتُ: حَدَّثَنَا عَنْ بُرَيْدَةَ بْنِ حُصَيْبٍ الأَسْلَمِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: لَا رُقْيَةَ إِلَّا مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ، فَقَالَ: قَدْ أَحْسَنَ مَنِ انْتَهَى إِلَى مَا سَمِعَ، وَلَكِنْ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ الأُمَمُ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ وَمَعَهُ الرُّهَيْطُ، وَالنَّبِيَّ وَمَعَهُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، وَالنَّبِيَّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، إِذْ رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ أُمَّتِي، فَقِيلَ لِي: هَذَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ وَقَوْمُهُ، وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ الآخَرِ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: هَذِهِ أُمَّتُكَ، وَمَعَهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، وَلَا عَذَابٍ، ثُمَّ نَهَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَخَاضَ النَّاسُ فِي أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، وَلَا عَذَابٍ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ صَحِبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي الإِسْلَامِ وَلَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ، وَذَكَرُوا أَشْيَاءَ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا الَّذِي تَخُوضُونَ فِيهِ؟، فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: هُمُ الَّذِينَ لَا يَرْقُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: أَنْتَ مِنْهُمْ؟، ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ، ہشیم نے کہا: ہمیں حصین بن عبد الرحمن نے خبر دی، کہا کہ میں سعید بن جبیر کے پاس موجود تھا، انہوں نے پوچھا: تم میں سے وہ ستارا کس نے دیکھا تھا جو کل رات ٹوٹا تھا۔ میں نے کہا: میں نے، پھر میں نے کہا کہ میں نماز میں نہیں تھا بلکہ مجھے ڈس لیا گیا تھا (کسی موذی جانور نے ڈس لیا تھا۔) انہوں نے پوچھا: پھر تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میں نے دم کروایا۔ انہوں نےکہا: تمہیں کس چیز نےاس پر آمادہ کیا؟ میں نے جواب دیا: اس حدیث نے جو ہمیں شعبی نے سنائی۔ انہوں نے پوچھا: شعبی نے تمہیں کون سی حدیث سنائی؟ میں نے کہا: انہوں (شعبی) نےہمیں بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت سنائی، انہوں نے بتایا کہ نظر بد لگنے اور زہریلی چیز کےڈسنے کے علاوہ اور کسی چیز کے لیے جھاڑ پھونک نہیں۔ تو سعید نے کہا: جس نے سنا، اسے اختیار کیا تو اچھا کیا۔ لیکن ہمیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنائی کہ آپ نے فرمایا: ”میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں، میں نے ایک نبی کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا، کسی (اور) نبی کو دیکھا کہ اس کےساتھ ایک یا دو امتی تھے، کوئی نبی ایسا بھی تھا کہ اس کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا، اچانک ایک بڑی جماعت میرے سامنے لائی گئی، مجھے گمان ہوا کہ یہ میرے امتی ہیں، اس پر مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ رضی اللہ عنہ اور ان کی قوم ہے لیکن آپ افق کی طرف دیکھیں، میں نے دیکھا تو (وہاں بھی) ایک بہت بڑی جماعت تھی، مجھے بتایا گیا: یہ آپ کی امت ہے۔ اور ان کےساتھ ایسے ستر ہزار (لوگ) ہیں جو کسی حساب کتاب اور کسی عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔“ پھر آپ اٹھے اور ا پنے گھر کے اندر چلے گئے، وہ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ) ان لوگوں کے بارے میں گفتگو میں مصروف ہو گئے، جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ ان میں سے بعض نے کہا: شاید وہ لوگ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ بعض نے کہا: شاید یہ لوگ وہ ہوں گے جو اسلامی دور میں پیدا ہوئے اور (ایک لمحہ بھی) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا اور انہوں نے بعض دوسری باتوں کا بھی تذکرہ کیا پھر (کچھ دیربعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکل کر ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ” تو کن باتوں میں لگے ہوئے ہو؟“ انہوں نے آپ کو وہ باتیں بتائیں، اس پر آپ نے فرمایا: ”وہ ایسے لوگ ہیں جو نہ دم کرتے ہیں، نہ دم کرواتے ہیں، نہ شگون لیتے ہیں اور وہ اپنے رب پر پوراتوکل کرتے ہیں۔“ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئےاور عرض کی: اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں (شامل) کر دے تو آپ نے فرمایا: ” تو ان میں سے ہے۔“ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: دعا فرمائیے! اللہ مجھے (بھی) ان میں سے کردے تو آپ نے فرمایا: ”عکاشہ اس (فرمائش) کے ذریعے سے تم سے سبقت لے گئے۔“ حصین بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں، کہ میں سعید بن جبیر کے پاس تھا، انھوں نے پوچھا: کل شام ٹوٹنے والا ستارہ تم میں سے کس نے دیکھا؟ میں نے کہا: میں نے۔ پھر میں نے کہا: میں نماز میں نہیں تھا، کیونکہ مجھے بچھو نے ڈسا تھا۔ انھوں نے کہا: تو تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میں نے دم کروایا۔ انھوں نے کہا: تو تمھیں کس چیز نے اس پر آمادہ کیا؟ میں نے جواب دیا: اس حدیث نے، جو ہمیں شعبی نے سنائی۔ تو انھوں نےکہا: شعبی نے تمھیں کون سی حدیث سنائی؟ میں نے کہا: شعبی نے ہمیں بریدہ بن حصیب اسلمیؓ سے روایت سنائی، انھوں نے بتایا: دم، نظرِ بد لگنے اور زہریلی چیز کے ڈسنے سے ہی ہے۔ تو سعید نے کہا: جس نے جو سنا اس پر عمل کیا، تو نے اچھا کیا، لیکن ہمیں عبداللہ بن عباس ؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنایا آپ نے فرمایا: ”مجھ پر تمام امتیں پیش کی گئیں، میں نے بعض انبیاءؑ کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا۔ کسی نبیؑ کے ساتھ ایک یا دو امتی تھے، بعض کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا۔ اچانک میرے سامنے ایک بہت بڑی جماعت ظاہر ہوئی، میں نے خیال کیا یہ لوگ میرے امتی ہیں، تو مجھے بتایا گیا: یہ موسیٰؑ اور ان کی قوم ہے، لیکن آپ آسمان کے افق (کنارے) کی طرف دیکھیں۔ میں نے دیکھا، تو ایک بہت بڑی جماعت تھی، تو مجھے کہا گیا: دوسرے آسمانی کنارے کی طرف دیکھو! تو میں نے دیکھا، ایک بہت بڑی جماعت تھی۔ تو مجھے بتایا گیا یہ تیری امت ہے اور ان کے ساتھ ستر ہزار افراد ہیں، جو بلا حساب و عذاب جنت میں داخل ہوں گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور گھر چلے گئے، تو لوگ (صحابہ کرام ؓ) ان لوگوں کے بارے میں گفتگو کرنے لگے، جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ تو بعض نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہوں گے، جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفاقت کا شرف حاصل ہے۔ بعض نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہوں گے، جو اسلامی دور میں پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا۔ اور بعض نے کچھ اور باتوں کا تذکرہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ”تم کن باتوں میں مشغول ہو؟ یعنی (کس مسئلہ پر بحث کر رہے ہو) انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، اس پر آپ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہیں، جو نہ دم کرتے ہیں، نہ دم کرواتے ہیں اور اور نہ بد شگونی پکڑتے ہیں، اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔“ اس پر عکاشہ بن محصنؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ سے دعا فرمائیے! کہ مجھے بھی ایسے لوگوں سے کر دے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان میں سے ہے۔“ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! دعا فرمائیے! اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے عکاشہ سبقت لے گیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في احاديث الانبياء وفاة موسى ذكره بعد حدیث (3410) مختصراً وفى الطب، باب: مناکتوی، او کوی غیره، وفضل من لم يكتو برقم (5705) وفي باب: من لم يرق برقم (5752) وفي الرقاق، باب: ﴿ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ برقم (6472) وفي، باب: يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب برقم (6541) والترمذي في ((جـامـعـه)) في الزهد، باب: 16 برقم (22446) وقال: هذا حديث حسن صحيح ((تحفة الاشراف)) (5493)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حصین بن عبد الرحمن سے (ہشیم کے بجائے) محمد بن فضیل نے سعید بن جبیر کے حوالے سے حدیث سنائی، انہوں نےکہا: ہمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نےحدیث سنائی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرےسامنے تمام امتیں پیش کی گئیں .....“ پھر حدیث کا باقی حصہ ہشیم کی طرح بیان کیا اور ابتدائی حصے (حصین کےواقعے) کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر تمام امتیں پیش کی گئیں۔“ پھر حدیث کا باقی حصہ ہشیم کی طرح بیان کیا، اور حدیث کا ابتدائی حصہ (حصین کا واقعہ) بیان نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (526)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|